قتال فی سبیل اللہ اور ہجرت کے مباحث کے ساتھ ساتھ ضمنی طور پر بعض ایسے مسائل بھی زیر بحث آ گئے جو اِس مرحلے پر عملی مشکلات کے طور پر سامنے آئے.

(۱) ان میں سے ایک کسی مؤمن کے ہاتھوں مؤمن کا قتل ہے. اس ضمن میں فرمایا گیا کہ کسی مؤمن کے قتل عمد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ہاں قتلِ خطا کا امکان موجود ہے. سو اس صورت میں ایک تو عام ضابطے کے مطابق مقتول کے ورثاء کو دِیت دینی ہو گی‘ اِلاّ آنکہ وہ معاف کر دیں‘ اور اضافی طور پر ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہو گا. البتہ اس صورت میں کہ مقتول کسی کافر قبیلے سے تعلق رکھتا ہو‘دیت ادا نہیں کی جائے گی اور صرف مسلمان غلام کا آزاد کرنا کافی ہو گا. اور اگر وہ معاہد قبیلے سے تعلق رکھتا ہو تو دیت بھی دینی ہو گی. اور اگر کوئی شخص غلام آزاد کرنے کی اِستطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے پے بہ پے دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں گے.آخر میں متنبہ کر دیا گیا کہ: 

وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا ... (آیت ۹۳)

’’اور جس نے جان بوجھ کر کسی مؤمن کو قتل کیا تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا.....‘‘ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب بدء الوحی‘ باب بدء الوحی. (۲) دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ حالت ِجنگ میں بھی اگر کوئی شخص اسلام و ایمان کا اظہار کرے تو اس کے اسلام وایمان کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا.

(۳) تیسرا معاملہ صلوٰۃِ خوف کا ہے جس کی طرف اجمالی اشارہ سورۃ البقرۃ میں آ گیا تھا. اب اس کی تفصیلی صورت یہاں واضح کر دی گئی ‘خصوصاً آنحضور کی موجودگی میں جب کہ بجا طور پر ہر شخص آپؐ ہی کی امامت میں نماز ادا کرنے کا خواہش مند ہوتا تھا کہ پہلے ایک گروہ آپؐ ‘ کی امامت میں نماز ادا کر لے اور بقیہ لوگ پہرے پر رہیں‘ پھر پہلا گروہ ان کی جگہ پہرے پر چلا جائے اور وہ لوگ آپ ؐ کے پیچھے نماز ادا کر لیں ‘تاکہ کوئی بھی آپ کی اِقتداء کے شرف سے محروم نہ رہے! مزید تاکید فرما دی گئی کہ جیسے ہی حالات درست ہوں نماز کے نظام کو اُس کے تمام ضوابط و آداب کے ساتھ قائم کر لو.