اس کے بعد آیات ۱۰۵ تا ۱۲۶‘ یعنی سولہویں‘سترھویں اور اٹھارہویں رکوع میں منافقین کی شرارتوں کا ذکر ہے اور ان کے کردار کی پوری نشاندہی کر دی گئی ہے‘ تاکہ اہل ایمان اُن کو اچھی طرح پہچان لیں اور کسی خاندانی یا گروہی عصبیت کے باعث ان کی حمایت پر آمادہ نہ ہو جائیں. اس ضمن میں آیت ۱۰۹ میں بڑی سخت وعید وارد ہوئی کہ:

’’ہاں‘ اس دنیا کی زندگی میں توتم نے ان کی جانب سے جھگڑا کر لیا‘ لیکن (سوچوکہ) قیامت کے دن ان کی جانب سے کون جھگڑا کرے گا اللہ سے ‘یا کون ان کا حمایتی (اور وکیل) بنے گا!‘‘

اُن کی شرارتوں کے ضمن میں اُن کے نجویٰ کا ذکر بھی کیا گیا جو وہ اپنی نجی محفلوں میں آنحضور اور مسلمانوں کے خلاف کیا کرتے تھے‘اور اس کا بھی کہ غلطیاں خود کرتے تھے اور تھوپ دیتے تھے مخلص مگر سادہ لوح مسلمانوں پر. اور آخری بات جو ارشاد فرمائی گئی ‘وہ یہ کہ چونکہ وہ یہود کے زیر اثر تھے لہذا اس سبب پر بھی ان ہی کی طرح کھوکھلی ’’اَمَانِیّ‘‘ کی بنا پر مغفرت ہی نہیں درجاتِ بلند کے امید وار تھے. ؏ :

’’ببیں تفاوتِ راہ از کجا است تابہ کجا!‘‘ چنانچہ آیت ۱۱۵ میں واضح کر دیا گیا کہ: ’’جو شخص رسول سے دشمنی رکھے گا اپنے اوپر ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد اور مخلص اہل ایمان کا راستہ چھوڑ کر کوئی دوسری راہ اختیار کرے گا اسے ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا (اُس کو اُس کی شامت اعمال ہی کے حوالے کر دیں گے) اور (بالآخر) ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے. اور یہ بدترین جائے قرار ہے.‘‘