سورۃ النساء میں منافقین سے خطاب کا دوسرا حصہ آیات ۱۳۶ تا ۱۵۲ پر مشتمل ہے اور اس میں آغاز ایک انتہائی مؤثر اپیل سے کیا گیا ہے‘ یعنی:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ 

’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر اور اُس کتاب پر بھی جو اُس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اُس کتاب پر بھی جو اُس نے پہلے نازل کی.‘‘

گویا ایمان کے دو درجے ہیں. ایک ظاہری اور قانونی ایمان.یہ تو منافقین کو بھی حاصل تھا. دوسرا حقیقی اور قلبی ایمان جو عبارت ہے یقینِ محکم سے اور جس سے منافق بے بہرۂ محض تھے. چنانچہ آیت میں ان ہی سے خطاب فرما کر کہا گیا ہے کہ اصل قلبی ایمان تک رسائی کی کوشش کرو ‘اس لیے کہ اُخروی نجات کا دارومدار اسی پر ہے.
پھر نفاق کی اصل حقیقت کو کھولا گیا کہ یہ ایمان اور کفر کے مابین تردّد اور تذبذب کی کیفیت کا نام ہے‘کہ ایک قدم اِدھر ہے اور دوسرا اُدھر. چنانچہ آیت ۱۳۷ ‘۱۳۸ میں فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا لَّمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ سَبِیۡلًا ﴿۱۳۷﴾ؕبَشِّرِ الۡمُنٰفِقِیۡنَ بِاَنَّ لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمَۨا ﴿۱۳۸﴾ۙ 
’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے‘پھر کفر میں مبتلا ہوئے‘پھر ایمان لائے‘پھر کفر میں مبتلا ہو گئے ‘ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے‘ اللہ ان کو معاف فرمانے والا ہرگز نہیں ہے اور نہ راہ یاب کرنے والا ہے. ایسے منافقوں کو تو آپ (اے رسول!) دردناک عذاب ہی کی بشارت دے دیجیے!‘‘

اور آیت ۱۴۳ میں فرمایا:

مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ 
’’یہ اس (کفر و ایمان) کے درمیان مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں‘نہ (یکسوئی سے) اِدھر ہوتے ہیں اور نہ اُدھر.‘‘