اس طویل بحث کا اختتام اُسی مضمون پر ہوا ہے جس سے اس کا آغاز ہوا تھا‘ یعنی اللہ اور اُس کے رسولوں کے مابین تفریق ‘کہ اللہ کو مانا جائے اور رسولوں کا انکار کیا جائے‘یا رسولوں میں سے بعض کو مانا جائے اور بعض کو نہ مانا جائے ‘یااللہ کی اطاعت کا اقرار تو کیا جائے لیکن رسول کی اطاعت شاق گزرے. یہ تمام صورتیں دراصل کفر ہی کی ہیں. ایسے لوگوں کے لیے فرمایا گیا: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ حَقًّا ۚ (آیت ۱۵۱’’وہ سب پکے کافر ہیں‘‘.

خواہ وہ بزعم خویش مسلم و مؤمن ہوں. غور کیا جائے تو جس طرح سورۃ البقرۃ کے دوسرے رکوع میں جس کردار کی نقشہ کشی کی گئی تھی اُس میں یہود اور منافقین دونوں پوری طرح فٹ بیٹھتے تھے‘ اسی طرح سورۃ النساء کے اس مقام پر بھی جس گمراہی کی نشاندہی کی گئی اس میں یہ دونوں گروہ شریک تھے اور دونوں کا مرض ایک ہی تھا‘ یعنی آنحضور سے بغض و عداوت اور اُن پر ایمان یا اُن کی اطاعت سے اِباء و اعراض! اور یہ اس لیے کہ نفاق کا پودا درحقیقت یہود ہی کا کاشت کردہ تھا اور اُس کی آبیاری اُن ہی کے پروپیگنڈے اور ریشہ دوانی سے ہوتی تھی.

آخر میں فرمایا کہ:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمۡ یُفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ اُولٰٓئِکَ سَوۡفَ یُؤۡتِیۡہِمۡ اُجُوۡرَہُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۵۲﴾٪ 
’’اور ( اس کے برعکس) جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور اُن کے مابین کسی قسم کی تفریق کے مرتکب نہ ہوئے اللہ عنقریب اُن کو اُن کے اجر عطا فرمائے گا .اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا (اور) رحم فرمانے والا ہے‘‘.

گویا بقول علامہ اقبال: ؎

بمصطفیٰ ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باُو نہ رسیدی تمام بولہبی است 

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ!