حکمت تشریح کے ذیل میں جو قیمتی ہدایات اس سورۂ مبارکہ میں وارد ہوئیں وہ یہ ہیں:

(۱) حکم دینے کا اختیار اللہ کو ہے اور اس کا یہ اختیار مطلق ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ ﴿۱﴾ ’’یقینا اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے.‘‘ 

(۲) شریعت کے احکام پر مسلمانوں کو معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کے بجائے خود اعتمادی کا اظہار کرنا چاہیے اور اَغیار کے طعن و استہزاء کی ہرگز پروا نہیں کرنی چاہیے: فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ(آیت ۳’’پس اُن سے مت ڈرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو.‘‘ 

(۳) شریعت بوجھ نہیں‘ تمام تر نعمت ہے: وَ لِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۶﴾ ’’اور تاکہ اللہ اپنی نعمت پوری کرے تم پر‘تاکہ تم شکر کرو.‘‘

(۴) البتہ تشدد پسندی بھی فتنے کا موجب ہے. رخصتوں سے فائدہ اُٹھانے میں ہچکچانا اچھانہیں: مَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ (آیت ۶’’اللہ تم پر کوئی تنگی پیدا نہیں کرنا چاہتا.‘‘

(۵) اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو خواہ مخواہ حرام ٹھہرا لینا بہت بڑی گمراہی ہے. (آیات ۸۷۸۸)

(۶) اسی طرح ایمان لانے سے قبل جو حرام چیزیں کھائی یا پی ہیں اُن کے بارے میں بھی پریشانی کی ضرورت نہیں. وہ تمام حساب ایمان اور توبہ کے ذریعے صاف ہو جاتا ہے. (آیت ۹۳)

(۷) اہل ایمان کو ناپاک چیزوں کی کثرت سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے‘ اصل چیز طہارت و پاکیزگی ہے نہ کہ کثرت وقلت. (آیت۱۰۰)

(۸) خواہ مخواہ کے سوالوں سے اجتناب کرنا چاہیے‘خصوصاً جس وقت قرآن مجید نازل ہو رہا تھا غیر ضروری کھود کرید مباحات کے دائرے کو تنگ کرنے کا سبب بن سکتی تھی. اور یہی طرزِ عمل تھا جس سے یہود نے اپنے اوپر شریعت کے بوجھ میں اضافہ کرایا.(آیت ۱۰۱۱۰۲)

(۹) آخری اور اہم ترین یہ کہ شریعت ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے. اس کے ایک جزو کا انکار بھی کل کا انکار شمار ہو گا‘ بلکہ جو مسلمان شریعت کے کسی ضابطے کو جان بوجھ کر توڑتا ہے وہ گویا ایمان کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرتا ہے‘اس کے تمام اعمال حبط ہو جائیں گے: 

وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُہٗ ۫ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ٪﴿۵﴾ 
’’اور جس کسی نے ایمان (کی روش پر چلنے) سے انکار کیا تو اُس کا سارا عمل (کارنامۂ زندگی) ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہو گا.‘‘

یہ گویا وہی مضمون ہے جو سورۃ البقرۃمیں یہود سے خطاب کے ضمن میں اِن الفاظ میں آیا تھا کہ:

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ 
’’کیا تم (اللہ کی) کتاب کے ایک حصے پر ایمان رکھتے ہو اور (اس کے) دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو؟ توجو تم میں سے ایسا کرتا ہے اس کی سزا دنیاکی زندگی میں ر سوائی کے سوا اور کچھ نہیں اور آخرت میں یہ شدید ترین عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے. اوراللہ اُس چیز سے بے خبر نہیں ہے جو تم کررہے ہو.‘‘