اسی طرح جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے حکم اور اُس کے لیے ترغیب و تحریص کے ذیل میں بھی:

(۱)پہلے تو آیات ۲۰ تا ۲۶ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا وہ شرمناک واقعہ بیان ہوا کہ جب اُن پر قتال فرض کیا گیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا اور اللہ کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بارگاہِ ربانی میں عرض کرنا پڑا کہ: رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾ ’’اے ربّ! مجھے سوائے اپنی جان اور اپنے بھائی کے کسی پر کوئی اختیار نہیں‘ پس تو ہمارے اور ہماری نافرمان قوم کے مابین تفریق فرما دے!‘‘ یہ گویا شرح ہوئی اُسی بات کی جوسورۃ النساء میں آنحضور ‘کو خطاب فرما کر کہی گئی تھی کہ اگر کوئی اور قتال کے لیے نہ نکلے تو آپ تن تنہا نکلیں! اور جس کا ایک عکس نظر آتا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت میں کہ جب مانعینِ زکوٰۃ سے قتال کرنے کے ضمن میں اختلاف ِرائے ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر اور کوئی جنگ کے لیے نہ نکلا تو میں تن تنہا نکلوں گا.

(۲) اہل ایمان کو پہلے آیت ۳۵ میں مثبت طور پر جہاد کے لیے اُبھارا گیااور واضح کیا گیاکہ اللہ تک رسائی اور اُس کی رضا کے حصول کا اصل ذریعہ و وسیلہ جہاد فی سبیل اللہ ہی ہے. اور پھر آیت ۵۳ میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ اگر تم نے اپنے دینی فرائض کو ادا کرنے سے پہلو تہی کی تو اللہ تمہیں راندئہ درگاہِ حق فرما کر کسی اور قوم کو توفیق دے دے گا کہ ان فرائض کی انجام دہی کے لیے اُٹھ کھڑی ہو.