جہاں تک یہود و نصاریٰ اور منافقین کا تعلق ہے ‘اس سورۂ مبارکہ میں ایک بار پھر انہیں دعوتِ ایمان و اصلاح بھی دی گئی ہے اور ان کی اعتقادی و عملی گمراہیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور انہیں ملامت بھی فرمائی گئی ہے.اس موضوع کے اعتبار سے بھی اِس سورۂ مبارکہ کو ’’حرفِ آخر‘‘ کا درجہ حاصل ہے. اس سلسلے میں اہل کتاب نے جس طرح ’’میثاقِ کتاب و شریعت ‘‘ کی خلاف ورزی کی اور ’’حُکْم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ اور ’’اقامت مَا اُنْزِلَ مِنَ اللّٰہِ‘‘ کے ضمن میں کوتاہیاں کیں‘ان کا ذکر پہلے ہو چکا ہے.

آیت ۷۸ میں فرمایا گیا کہ اُن کے انہی کرتوتوں کے باعث یہود پر تو پہلے بھی حضراتِ داؤد وعیسیٰ علیہما السلام کی زبان سے لعنت کرائی جا چکی ہے جس کی تکمیل اب نبی اکرم اور قرآن مجید کے ذریعے ہو رہی ہے ‘اور پھر آیت ۸۲ اور ۸۳ میں فرمایا کہ نصاریٰ میں ایسے حق پسند قِسِّیْسِین اور رُہبان موجود ہیں جو جیسے ہی قرآن مجید کی آیات سنتے ہیں ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور وہ پکار اُٹھتے ہیں: رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۸۳﴾ ’’اے ربّ ہمارے! ہم ایمان لائے‘ پس ہمارا نام گواہوں کے ساتھ لکھ لے!‘‘ اور اِس ضمن میں آخری تہدید وارد ہوئی آیت ۱۹ میں جس کا ترجمہ یہ ہے:

’’اے اہل کتاب ! آ گیا ہے تمہارے پاس ہمارا رسول ( ) تمہارے لیے (راہِ ہدایت کو) واضح کرتے ہوئے‘رسولوں کے سلسلے میں ایک وقفے کے بعد‘مبادا تم کہو کہ ہمارے پاس تو نہ کوئی بشارت دینے والا آیا نہ خبردار کرنے والا. پس آ گیا تمہارے پاس بشارت دینے والا بھی اور خبردار کرنے والا بھی!‘‘

یعنی آنحضور کی بعثت کے بعد اب تمہارے پاس کوئی عذر نہ رہے گا. یہ گویا تشریح ہے اس ضابطہ کی جو سورۃ النساء میں ان الفاظ میں وارد ہوا تھا:

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ (آیت ۱۶۵)

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoo