قرآن حکیم کا تقریباً دو تہائی حصہ مکی سورتوں پر مشتمل ہے. ان میں سورۃالانعام اور سورۃ الاعراف کلامِ پاک کی طویل ترین مکی سورتوں کے ایک نہایت حسین اور جمیل جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں‘ اِن دونوں میں خطاب کا اصل رُخ بنی اسمٰعیل بالخصوص قریش مکہ کی طرف ہے اور پورے مکی قرآن میں انہیں جن دلائل کے ساتھ توحید‘معاد اور رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اُن کا ایک جامع خلاصہ ان دونوں سورتوںمیں آ گیا ہے. ساتھ ہی چونکہ یہ مکی دَور کے آخری حصے میں نازل ہوئی ہیں لہذا ان میں تہدید و تنبیہہ کا رنگ بھی بہت نمایاں ہے‘اور چونکہ اُس زمانے میں آنحضور کی دعوت کا چرچا عرب میں دُور دُور تک پھیل چکا تھا اور آپ کی مخالفت میں بالواسطہ طور پر یہود بھی شامل ہو چکے تھے‘ لہذا چند مقامات پر اُن کے اعتراضات کا جواب بھی ضمنی طور پر دیا گیا ہے‘اگرچہ ان سے براہ ِ راست خطاب نہیں کیا گیا. جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ‘ توچونکہ ابھی اُن کی حیثیت صرف ایک داعی جماعت کی تھی اوران کے اپنے معاشرے یا ریاست کے قیام کا مرحلہ ابھی نہیں آیا تھا‘ لہذا انہیں شریعت کے تفصیلی احکام ابھی نہیں دیے گئے ‘بلکہ زیادہ تر حق و باطل کی کش مکش کے پس منظر میں ‘جواُس وقت انتہائی شدت اختیار کر گئی تھی‘ آنحضور اور آپ کے جان نثاروں کوصبر وتحمل کی تلقین بھی کی گئی ہے اور حالات کی مناسبت سے ضروری ہدایات بھی دی گئی ہیں.

سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف کے مابین مضامین کی تقسیم کوشاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اختیار کردہ دو اصطلاحات کے حوالے سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے. یعنی سورۃ الانعام میں اسلوب زیادہ تر ’’التّذکیر بآلاء اللّٰہ‘‘ کا ہے ‘یعنی اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کی ربوبیتِ عامہ کی نشانیوں کے حوالے سے ایمان کی دعوت .اور سورۃ الاعراف میں انداز ’’التَّذکیر بایّام اللّٰہ‘‘ کا ہے‘یعنی گزشتہ قوموں پر اللہ کے رسولوں علیہم السلام کی تکذیب اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار و اعراض کی پاداش میں جو عذابِ استیصال نازل ہوئے ان کے حوالے سے انذار اور تہدید و تنبیہہ!