سُورۃ الانعام: تذکرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام

سورۃ الانعام ۱۶۵ آیات اور ۲۰ رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس کے عین وسط میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے کہ انہوں نے اوّلاً شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں آنکھ کھولنے کے باوجود کس طرح فطرتِ سلیمہ اور عقلِ سلیم کی رہنمائی میں نورِ توحید تک رسائی حاصل کی اور پھر انتہائی مخالفانہ ماحول میں وہ کس صبر وثبات اور استقلال و پامردی کے ساتھ توحید پر جمے رہے ‘اور نہ صرف یہ کہ پوری قوم کی مخالفت بھی ان کو مرعوب اور ہراساں نہ کرپائی بلکہ انہوں نے دلیل کے میدان میں اپنی پوری قوم کو شکست ِفاش دی.

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا گیا کہ قریش مکہ نسلاً بھی اُن ہی کی ذرّیت تھے اور اس کے بھی مدعی تھے کہ وہ دین ابراہیمی ہی پر کاربند ہیں‘جسے وہ دین حنیفی بھی کہتے تھے. چنانچہ اُن پر واضح کیا گیا کہ اُن کے جدّ امجد نے تو تمام معبودانِ باطل کا انکار کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ: 

یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ ﴿۷۸﴾اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾ 
’’اے میری قوم کے لوگو! میں اُن سب سے بیزار ہوں (لا تعلقی کا اعلان کرتا ہوں) جنہیں تم نے (خدائی میں) شریک سمجھ رکھا ہے. یقینامیں نے تو بالکل یکسو ہو کر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کووجود بخشا اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں.‘‘ 

اور پھر جب قوم نے انہیں اپنے مزعومہ معبودوں اور دیوتاؤ ں کی سزا سے ڈرایا تو انہوں نے بے دھڑک اعلان کیا:

’’ آخر میں تمہارے (جھوٹ موٹ کے) شریکوں سے کیسے ڈروں‘ جبکہ تمہیں اللہ کے ساتھ اِن چیزوں کو شریک کرتے خوف نہیں آتا جن کے لیے اُس نے تمہارے اوپر کوئی سند نہیں اتاری. پس دونوں فریقوں میں سے امن (بے خوفی اور اطمینان) کا زیادہ حق دار کون ہے اگر تم جانتے ہو؟(عقل سے بالکل بے بہرہ نہیں ہو گئے ہو‘ تو خود غور کرو!سن رکھو کہ) حقیقی امن بھی صرف اُن کے لیے ہے اور ہدایت پر بھی صرف وہی ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک کی نجاست سے آلودہ نہ ہونے دیا!‘‘ (آیات ۸۲۸۳)