حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر کے ساتھ ہی اس سورۂ مبارکہ میں سترہ انبیاء و رُسل علیہم السلام کا ذکر ہے. واضح رہے کہ حضراتِ انبیاء ؑکے اسماءِ گرامی کا اتنا عظیم اور حسین وجمیل گلدستہ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ صرف ایک ہی مقام پر ہے اور وہ ہے سورۃ الانبیاء . ان جلیل القدر انبیاء و رُسل ؑکے ذکر کے بعد دو نہایت اہم باتیں ارشاد ہوئیں: ایک یہ کہ بفرضِ محال اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو تمام تر جلالت ِ شان کے باوجود اُن کے بھی تمام اعمال حبط ہو جاتے اور ساری نیکیاں اکارت جاتیں.

گویا شرک اتنا بڑا جرم ہے کہ اُس کے ساتھ بڑی سے بڑی نیکی بھی مفید نہیں ہو سکتی. اور دوسرے یہ کہ آنحضور سے فرمایا گیا کہ یہ ہے وہ مقدس جماعت جو اللہ کی جانب سے ہدایت پر تھی تو آپ بھی اُن کے نقش قدم پر چلیں‘ یعنی حق کی راہ میں جو مصائب انہوں نے جھیلے اور جس صبر وثبات کا مظاہرہ کیا وہی آپ ؐ ‘کو اور آپ ؐ کے ساتھی اہل ایمان کو کرنا چاہیے. اس میں ضمناً اہل کتاب کے سامنے یہ حقیقت واضح کر دی گئی کہ آنحضور اور آپؐ کے ساتھی اہل ایمان ہرگز کسی نسلی تعصب میں مبتلا نہیں ہیں‘ اس لیے کہ اگرچہ انبیاءِ بنی اسرائیل نسلاً یہود کے اَسلاف میں سے تھے لیکن قرآن نے اُن کی جلالت ِشان کے بیان میں ہرگز کسی بخل سے کام نہیں لیا!