تقریر نمبر ۸: سُورۃ الاعراف

سورۃ الاعراف جو قرآن مجید میں آٹھویں پارے کے نصف سے لے کر نویں پارے کے تین چوتھائی حصے تک پھیلی ہوئی ہے اور ۲۰۶ آیات اور ۲۴ رکوعوں پر مشتمل ہے‘ قرآن حکیم کی طویل ترین مکی سورت ہے. سورۃالانعام کی طرح اس میں بھی خطاب کا اصل رُخ قریش مکہ کی جانب ہے .اور اگرچہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا وہ باب جو تورات کی کتاب الخروج سے مشابہت رکھتا ہے‘اس سورۃ میں خاصی تفصیل سے بیان ہوا ہے‘ تاہم سورۃالانعام کی طرح اس سورت میں بھی ان سے براہِ راست خطاب نہیں کیا گیا‘ بلکہ یہ تذکرہ تمہید بن گیا اس مفصل خطاب کے لیے جو یہود سے ہجرت کے بعد سورۃ البقرۃ میں وارد ہوا.

قرآن حکیم میں سورۂ ابراہیم کی آیت ۵ میں آنحضور کو خطاب کر کے فرمایا گیا کہ: وَ ذَکِّرۡہُمۡ بِاَیّٰىمِ اللّٰہِ ؕ ’’اور(اے نبیؐ ! )آپ انہیں یاد دہانی کرایئے اللہ کے دنوں کے حوالے سے‘‘.اس آیت میں اللہ کے دنوں سے مراد وہ ایام ہیں جن میں اہم تاریخی واقعات رُونما ہوئے. یعنی وہ ایام بھی جن میں رسولوں کی دعوت سے اعراض کی پاداش میں قوموں کی ہلاکت اور تباہی کے فیصلے صادر و نافذ ہوئے اور اس کے علاوہ وہ اہم واقعات بھی جو اس سلسلۂ تخلیق کی بساط بچھانے کے ضمن میں رُونما ہوئے یا اس بساط کے تہہ کیے جانے کے وقت ر ُونما ہوں گے.

سورۃ الاعراف اس 
’’تذکیر بایام اللہ‘‘ کی حسین ترین مثال ہے.چنانچہ جس طرح سورۃ الانعام کے عین وسط میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی ذُرّیت کے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کا ذکر تھا‘ اسی طرح اس سورۂ مبارکہ کے وسط میں آیت ۵۹ سے لے کر آیت ۱۳۷ تک ان چھ اولوا العزم رسولوں کا ذکر ہے جن کی قوموں پر اُن کو جھٹلانے اور اُن کی دعوت کو ردّ کر دینے کی پاداش میں عذاب نازل ہوا اور انہیں نیست و نابود کر دیا گیا‘یعنی حضرت نوح‘ حضرت ہود‘ حضرت صالح‘ حضرت لوط‘ حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام. واضح رہے کہ ان چھ رسولوں کے حالات اور ان کی قوموں کے انجام کا ذکر قرآن مجید کی متعدد سورتوں میں وارد ہوا ہے‘ جیسے سورۂ یونس اور سورۂ ہود میں‘اور سورۃ المؤمنون ‘سورۃ العنکبوت اور سورۃ الشعراء وغیرہ میں. اس کا سبب یہ ہے کہ یہ عرب اور اُس کے اطراف و جوانب کی تاریخ کے واقعات ہیں جن کا ذکر عرب کی روایات میں بکثرت موجود تھا. چنانچہ اہل عرب بالخصوص قریش مکہ کو بار بار اُن کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی.

ان میں سے قومِ نوحؑ عرب کے شمال مشرق میں آباد تھی‘ قومِ ہودؑ یعنی عاد کا مسکن عرب کا جنوب مشرقی گوشہ تھا اور بقیہ چاروں اقوام یعنی ثمود‘قومِ شعیبؑ‘قومِ لوطؑ اور آلِ فرعون کے مسکن عرب کے شمال مغربی گوشے میں تھے. اور اُن میں سے تین تو وہ ہیں جن کی تباہ شدہ بستیاں اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھیں جو حجاز سے شام تک جاتی تھی. یعنی جنوب سے شمال کی جانب پہلے مساکنِ ثمود‘پھر مساکنِ قومِ شعیب ؑ اور پھر قومِ لوط ؑکی بستیاں جن کے کھنڈروں پر سے اہل عرب اپنے تجارتی سفروں کے دوران گزرا کرتے تھے. یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی مکی سورتوں میں ان رسولوں اور اُن کی قوموں کا ذکر بتکرار و اعادہ آیا ہے‘ تاکہ قریش اُن کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کریں اور اس غرے میں نہ رہیں کہ ہمیں سر زمین عرب میں قوت و شوکت اور دبدبہ و اقتدار حاصل ہے. اس لیے کہ ان اقوام کو بھی اپنے اپنے زمانے میں اُن سے کہیں زیادہ غلبہ و اقتدار حاصل تھا‘ لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی گرفت میں آئے تو اُن کو ہلاکت و بربادی سے نہ اُن کی حشمت و سطوت بچا سکی نہ قوت و شوکت!

ان رسولوں کی دعوت کے ضمن میں الفاظ کے باربار اعادے سے یہ حقیقت واضح کی گئی کہ ان سب کی بنیادی دعوت ایک ہی تھی‘ یعنی یہ کہ: 
یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ ہی کی بندگی (اور پرستش) کرو‘تمہارا اس کے سوا نہ کوئی مالک ہے نہ معبود!‘‘ گویا انسان کی ہدایت کا اصل الاصول توحید ہے اور تمام گمراہیوںاور ضلالتوں کی جڑ اور بنیاد شرک ہے. معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضراتِ نوح‘ہود اور صالح علیہم السلام کے عہد تک ابھی انسانی تمدن بالکل ابتدائی مراحل میں تھا. چنانچہ ضلالت و گمراہی کی بھی صرف یہ جڑ ہی قائم ہوئی تھی‘ اس شجرۂ خبیثہ کے دوسرے ثمراتِ خبیثہ ابھی ظاہر نہیں ہوئے تھے. لیکن پھر جیسے جیسے تمدن نے ارتقائی مراحل طے کیے اس اُمّ الخبائث کے ثمرات و مضمرات کا ظہور بھی شروع ہو گیا. چنانچہ قومِ لوط کے حالات میں جنسی آوارگی اور بے راہروی (sexual perversion) کا ذکر ملتا ہے ‘ قومِ شعیب کے حالات میں مالی بدعنوانیوںاور ناپ تول میں کمی بیشی اور چوری و راہزنی کا ذکر ملتا ہے اور آلِ فرعون کے حالات میں ایک قوم کے دوسری قوم پر ظلم اور جبر و تشدد کا ذکر ملتا ہے. غور کیا جائے تو آج بھی انسانی تمدن میں فساد کی یہی تین صورتیں ہیں ‘یعنی معاشرتی اقدار کی پامالی اور عفت و عصمت اور گھریلو امن و سکون کی بربادی‘یا معاشی بدعنوانیاں یا سیاسی جبر و استحصال. اور درحقیقت یہ تینوں اصل نہیں فرع ہیں ‘یعنی جڑ نہیں شاخیں ہیں اس شجرۂ خبیثہ کی جس کی اصل اور جڑ کی حیثیت شرک کو حاصل ہے.

اس میں گویا کہ تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ اے معشرِ قریش! تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے. آج ہمارا رسول تمہیں اسی توحید کی دعوت دے رہا ہے. تمہارے اخلاقی امراض کا علاج اور جملہ معاشرتی‘معاشی اور سیاسی مسائل کا تمام تر حل اس دعوت کے قبول کرنے میں مضمر ہے. اس کی یہ دعوت تمام تر نصح و خیر خواہی پر مبنی ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے بندے نوح علیہ السلام نے کہا تھا کہ:

اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۲
’’میں تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں‘ اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں (تمہارا خیر خواہ ہوں) اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں.‘‘

اور ہمارے بندے ہود علیہ السلام نے کہا تھا کہ:

اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنَا لَکُمۡ نَاصِحٌ اَمِیۡنٌ ﴿۶۸﴾ 
’’میں تم کو اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا خیر خواہ ہوں اطمینان (بھروسہ) کے لائق .‘‘

لیکن تم ہو کہ تکذیب و اعراض کی اُسی ڈگر پر چلنے پر مصر ہوجس پر چلنے کے باعث ان 
اقوام کا انجام یہ ہوا کہ: کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ۚ (آیت ۹۲’’(وہ ایسے ہو گئے) جیسے کبھی اِن بستیوں میں آباد ہی نہ تھے‘‘.اور: وَ قَطَعۡنَا دَابِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا (آیت۷۲’’اورہم نے کاٹ کر رکھ دی جڑ اُن لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کا انکار کیاتھا‘‘.جس پر حد درجہ حسرت و تأسّف کے ساتھ کہا تھا ہمارے بندے شعیب علیہ السلام نے کہ:

یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوۡمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿۹۳
’’اے میری قوم کے لوگو! میں نے پہنچا دیا ہے تم تک پیغام اپنے ربّ کا اور حق ادا کر دیا تمہاری خیر خواہی کا. پس میں اب کافروں کے انجام پر غم کروں تو کیسے!‘‘

تو اے معشرِ قریش! اب تم بھی اس انجام سے دوچار ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ ! سورۃ الاعراف میں ایک عجیب صورت یہ سامنے آتی ہے کہ ۳۵ آیات میں حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت شعیب علیہ السلام تک پانچ رسولوں اور اُن کی قوموں کا ذکر ہوا. پھر ۹ آیات میں عذابِ استیصال کے ضمن میں بعض اُصولی باتیں بیان ہوئیں اور اس کے بعد ۳۵ ہی آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ذکر ہوا. اس کا سبب یہ ہے کہ نبی اکرم کے حالات میں بھی قریب ترین مماثلت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات سے پائی جاتی ہے اور اُمت ِمسلمہ کے حالات میں بھی قریب ترین مشابہت بنی اسرائیل کے حالات سے پائی جاتی ہے. چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے ذکر کے بعد بیان شروع ہوا بنی اسرائیل کے حالات کا‘اور یہ سلسلہ بعد کی ۳۴ آیات تک چلا گیا. اور یہ بیان جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ‘تمہید بن گیا یہود کے ساتھ اس مفصل خطاب کی جو ہجرت کے بعد سورۃ البقرۃ میں وارد ہوا.

ّ بنی اسرائیل کے حالات و واقعات کے اس تذکرے میں بڑے اہتمام کے ساتھ بیان ہوا ہے وہ واقعہ کہ جب بچھڑے کی پرستش کے واقعہ کے بعد اُن کے ستر سرکردہ لوگوں کو ساتھ لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر اجتماعی توبہ و استغفار کے لیے حاضر ہوئے اور وہاں انہیں اللہ کے حکم سے ایک زلزلے نے آ پکڑا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی جناب میں عرض گزار ہوئے کہ:

’’اے میرے ربّ! اگر تو چاہتا تو ہلاک کر دیتا پہلے ہی ان سب کو بھی اور مجھ کو بھی. تو کیا تو ہمیں اُس (جرم کی پاداش )میں ہلاک کر دے گاجس کا ارتکاب ہمارے ناسمجھ لوگوں نے کیا؟( واقعہ یہ ہے کہ) یہ بھی بس تیری طرف سے ایک آزمائش ہے .تو اس کے ذریعے جس کو چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ہدایت دے دے. تو ہی ہمارا کار ساز ہے‘پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو بہترین بخشنے والا ہے .اور (اے ہمارے ربّ! )لکھ دے ہمارے لیے بھلائی اس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی. یقینا ہم تیری جناب میں رجوع کرتے ہیں! ‘‘(آیات ۱۵۵۱۵۶)

اس پر جواب ملا:
’’میں اگرچہ عذاب بھی دیتا ہوں جسے چاہتا ہوں‘ لیکن میری رحمت ہر چیز کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے .(رہی میری رحمتِ خصوصی) تو اسے میں مخصوص کر دوں گااُن لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں گے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں گے اورجو لوگ ہماری آیات پر ایمان لائیں گے‘جو پیروی کریں گے اُس اُمی نبی (اور) رسولؐ ‘کی جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھاہوا پاتے ہیں. وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا ‘انہیں برائی سے روکے گا اور اُن کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھہرائے گا اور اُن پر خبیث چیزوں کو حرام قرار دے گا اور اُن پر سے وہ بوجھ اور طوق اُتارے گا جو اُن پر پڑے ہوں گے. تو جو اُس پر ایمان لائیں‘اس کی عزت کریں‘اُس کی مدد کریں اور اس روشنی کی پیروی کریں جو اُس کے ساتھ اُتاری گئی تو وہی فلاح پانے والے ہوں گے!‘‘ (آیات ۱۵۶۱۵۷)
اور اس کے بعد آنحضور سے کہلوایا گیا:

’’کہہ دواے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں‘ اُس اللہ کا جس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین کو محیط ہے. اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘وہی جلاتا ہے اور وہی مارتا ہے. پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے اُمی نبی (اور) رسولؐ پر جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر بھی اور اُس کے کلمات پر بھی‘ اور پیروی کرو اُس کی تاکہ تم راہ یاب ہو سکو!‘‘ (آیت ۱۵۸
یہ گویا تمہید ہے اُس دعوتِ ایمان کی جو یہود کو ہجرت کے بعد سورۃ البقرۃ کے پانچویں رکوع میں براہِ راست خطاب کر کے دی گئی.

سورۃ الاعراف کے ابتدائی سات رکوعوں میں سے پہلے کی حیثیت تو ایک جامع انڈکس کی ہے‘ جس میں گویا اس سورت کے جملہ مباحث کے عنوانات جمع کر دیے گئے ہیں. چنانچہ اس میں وہ الفاظ بھی آئے ہیں جو گویا جامع عنوان ہیں رسولوں کے حالات اور ان کی قوموں کے انجام کے ذکر کے لیے جو اِس سورت کے اکثر حصے پر پھیلا ہوا ہے. چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

’’اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہوئی ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا تو آ دھمکا اُن پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت یا (عین دن کے وقت) جبکہ وہ قیلولہ کر رہے تھے. جب اُن پر ہمارا عذاب آیا تو انہوں نے بس یہی کہا کہ بلا شبہ ہم ہی ظالم تھے. تو (جان لو!) ہم لازماًان لوگوں سے بھی پرسش کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم خود رسولوں سے بھی لازماً سوال کریں گے!‘‘ (آیات ۴ تا ۶

اس کے علاوہ مکی سورتوں کے عام اسلوب کے مطابق توحید‘معاد اور رسالت پر ایمان لانے کی وہ دعوت بھی اختصار کے ساتھ آ گئی ہے جو اِس سے قبل سورۃالانعام میں تفصیلاً آئی تھی. اور ان پر مستزاد ہے اس سورت کے عام اسلوب کے مطابق ذکر اس سلسلۂ تخلیق کے آغاز اور انجام سے متعلق بعض حالات و واقعات کا. چنانچہ پہلے قدرے تفصیل کے ساتھ قصۂ آدم و ابلیس بیان ہوا ہے اور پھر احوالِ آخرت کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ کس حال میں ہوں گے اہل جنت اور اہل جہنم‘اور کیا گفتگو ہو گی اُن کے مابین. اس ضمن میں اصحابِ اعراف کا ذکر بھی قدرے تفصیل سے آیا ہے!
اسی طرح اس سورت کے اختتام پر بھی اوّلاً تو دو واقعات کا بیان ہوا. ایک نوعِ انسانی کی تخلیق کے اوّلین مرحلے کا جب ارواحِ انسانی کو وجود بخشا گیا اور اُن سے وہ عہدِاَلست لیا گیا جو محاسبۂ اُخروی کے وقت بطورِ دلیل و حجت پیش ہو گا اور دوسرے بنی اسرائیل کے ایک حد درجہ پارسا اور عالم و فاضل شخص کے شیطان کے ایک ہی چکمے میں آ کر گناہ کی انتہائی پستیوں میں جاگر نے کا. جس سے گویا ایک بار پھر وہی حقیقت 
سامنے لائی گئی جو ابتدا میں آدم و ابلیس کے واقعے میں بیان ہوئی تھی کہ شیطان آدم اور ذرّیت ِآدم کا ازلی و ابدی دشمن ہے. اس کی چالوں سے پوری طرح ہوشیار و چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور اس کے مقابلے میں مؤمن کا اصل دفاع ذکر ِالٰہی اور اللہ کی پناہ طلب کرتے رہنے میں ہے نہ کہ کسی اِدّعاءِ علم و فضل یا غرورِ برّو تقویٰ میں. چنانچہ تقریباً اختتام پر فرمایا گیا:

’’اور اگر تمہیں کوئی وسوسہ ٔ شیطانی لاحق ہونے لگے تو فوراً اللہ کی پناہ طلب کرو. بے شک وہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے. یقینا تقویٰ اختیار کرنے والے (خدا سے ڈرنے والے) لوگوں پر اگر کبھی شیطان کا گزر ہوتا ہے (شیطان کی چھوت لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے) تو وہ چونک جاتے ہیں ( فوراً خد اکا دھیان کرتے ہیں) چنانچہ اُن کو (فوری) بصیرت حاصل ہو جاتی ہے!‘‘ (آیات۲۰۰‘ ۲۰۱)

سورت کے اوّل و آخر میں قرآنِ حکیم کا ذکر ہے. آغاز میں فرمایا گیا:
’’ا ل مّ ص .یہ کتاب ہے جو تمہاری طرف اتاری گئی. پس (اے نبیؐ ! )نہ اس لیے کہ تمہارے دل میں اس سے پریشانی لاحق ہو ‘بلکہ اس لیے کہ تم اس کے ذریعے (لوگوں کو) خبردار کر دو اور اہل ایمان کے لیے یاد دہانی. (لوگو!) جو چیز تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے آئی ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر دوسرے اولیاء (سرپرستوں) کی پیروی نہ کرو. (واقعہ یہ ہے کہ )تم کم ہی یاد دہانی حاصل کرنے والے ہو.‘‘ (آیات ۱ تا ۳)

اور اختتام پر فرمایا:
’’کہہ دو( اے نبیؐ !) میں تو خود پیروی کرتا ہوں اس چیز کی جو میرے ربّ کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے. یہ تمہارے ربّ کی طرف سے بصیرت عطا کرنے والی آیات ہیں‘اور ہدایت اور رحمت ہیں اُن کے حق میں جو ایمان لائیں. اور (اے مسلمانو!) جب (تمہارے سامنے ) قرآن پڑھا جا رہا ہو تواُسے (کان لگا کر) توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘. (آیات۲۰۳‘ ۲۰۴

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ!