سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف دو مکی سورتوں کے بعد قرآن مجید میں سورۃ الانفال اورسورۃ التوبۃ پر مشتمل دو مدنی سورتوں کا موزوں اور متناسب جوڑا آتا ہے‘ جن میں موضوع اور مضامین کے اعتبار سے اتنا گہرا ربط اور انداز اور اسلوب کے اعتبار سے اتنی موزونیت موجود ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ دونوں ایک ہی سورت ہوں. چنانچہ بعض حضرات نے سورۃ التوبۃ کے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھے جانے کی فی الواقع یہی توجیہہ بیان بھی کی ہے‘ لیکن بوجوہ یہ خیال درست نہیں ہے.صحیح یہی ہے کہ دونوں علیحدہ علیحدہ سورتیں ہیں اور سورۃ التوبۃکے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھے جانے کا سبب اصلاً تو یہ ہے کہ رسول اللہ نے ایسا حکم دیا. البتہ اس کی توجیہہ کے ضمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول وزنی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ آیت ِامان ہے‘ چونکہ اس میں اللہ کے اسمائے حسنیٰ رحمن اور رحیم آئے ہیں‘ جب کہ یہ سورت گویا ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوئی ہے ‘اس لیے کہ اس کا آغاز آیاتِ برا ء ت یعنی اظہارِ بیزاری اور اعلانِ جنگ سے ہوتا ہے‘لہذا موزوں یہی تھا کہ اِس کے آغاز میں آیت بسم اللہ نہ تحریر کی جائے!

ترتیب ِنزولی کے اعتبار سے سورۃ الانفال کا نمبر سورۃ البقرۃ کے بعد ہے‘اس لیے کہ یہ سورت غزوۂ بدر کے فوراً بعد نازل ہوئی ‘ محسوس ہوتا ہے کہ بیک وقت ایک مربوط اور مسلسل خطبہ کی صورت میں نازل ہوئی‘ لیکن ترتیب ِمصحف میں اس کو سورۃ الانعام و سورۃ الاعراف کے بعد اور سورۃ التوبۃ سے قبل رکھا گیا .اور اس میں نظم کلام کے اعتبار سے غایت درجہ حکمت مضمر ہے‘ اس لیے کہ سورۃ الانعام گویا بنی اسماعیل کو بالعموم اور قریش مکہ کو بالخصوص دعوت کی سورت ہے اور سورۃ الاعراف کی حیثیت ان کے لیے آخری تنبیہہ اور تہدید (warning) کی ہے. اس کے بعد فطری طو رپر مشرکین عرب بالخصوص قریش پر عذاب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے. قریش مکہ کو عذاب سے امان اُس وقت تک حاصل رہی جب تک آنحضور مکہ میں مقیم رہے. جب آپؐ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے تو گویا امان اُٹھ گئی اور عذاب کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں پہلی قسط کی حیثیت حاصل ہے غزوۂ بدر میں قریش مکہ کے ستر سورماؤں کے قتل کو جن میں اُن کے بعض چوٹی کے سردار بھی شامل تھے. حتیٰ کہ اُن میں عتبہ بن ربیعہ بھی تھا جس کو اشرافِ قریش میں ایک نمایاں مقام حاصل تھا اور ابوجہل بھی تھا جس کے بارے میں خود آنحضور نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ: ھٰذَا فِرْعَوْنُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ کہ اسے اس دَور کے فرعون کی حیثیت حاصل ہے!

مشرکینِ عرب پر عذابِ خداوندی کے جس سلسلے کا آغاز غزوۂ بدر سے ہوا تھا وہ تکمیل و اتمام کو پہنچا ۹ھ میں‘جب کہ حج کے موقع پر آنحضور نے اعلانِ عام کرا دیا کہ چند ماہ کی مہلت دی جاتی ہے‘ اس کے بعد مشرکین کے خلاف اقدامِ عام شروع ہو جائے گا. اب جسے جزیرہ نمائے عرب میں رہنا ہو وہ اطاعت قبول کر لے اور اسلام لے آئے‘ بصورتِ دیگر اس سر زمین کو خیر باد کہہ کر جہاں سینگ سمائے چلا جائے. بہرصورت جزیرہ نمائے عرب کو چند ماہ کے بعد کفر اور شرک سے بالکل پاک کر دیا جائے گا.

ان تصریحات کے پیش نظر دو مکی اور دومدنی سورتوں کے اس گروپ نے انتہائی مربوط اور منظم کلام کی صورت اختیار کر لی ہے! فَافْھَمُوْا وَتَدَبَّرُوْا!