سورۃ الانفال جو ۷۵ آیات اور دس رکوعوں پر مشتمل ہے‘ اکثر و بیشتر غزوۂ بدر کے حالات و واقعات اور ان پر حکیمانہ تبصرے اور مسلمانوں کو دعوتِ اسلامی کے اس نئے دَور کے تقاضوں کی تیاری کی ہدایات پر مشتمل ہے جو غزوۂ بدر سے شروع ہوچکا تھا اور جسے جدید اِصطلاح میں عملی اقدام (Active Resistance) یامسلح تصادم (Armed Conflict) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے.اس سورۃ کا آغاز تو قرآن حکیم کے معروف اسلوب کے مطابق اُس مسئلے کے ذکر سے ہوا‘ جو اُس وقت بحث و نزاع اور چہ میگوئی کا اہم موضوع بن گیا تھا‘ یعنی مالِ غنیمت کا مسئلہ جس پر پہلے سے کسی قانون یاضابطے کے موجود نہ ہونے کے باعث مسلمانوں میں اختلاف کا پیدا ہو جانا بالکل فطری تھا. اس پر مستزاد یہ کہ اُسے معاندین نے مخالفانہ پروپیگنڈے کا ذریعہ بھی بنا لیا تھا‘کہ یہ کیسے رسول ہیں جو اپنی ہی قوم کے خلاف تلوار اٹھاتے ہیں اور اپنے ہی بھائی بندوں کو قتل کرتے ہیں‘اور اُن کا مال ہڑپ کرتے ہیں اور ان کے اسیروں سے رہائی کے عوض زرِ فدیہ وصول کرتے ہیں. چنانچہ پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’(اے نبیؐ !) لوگ آپ سے اموالِ غنیمت کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں.( ان کو) بتا دیجیے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول(ﷺ )کا حق ہے‘پس اللہ سے ڈرو اور اپنے مابین تعلقات کو درست رکھو اور اللہ اور اُس کے رسول(ﷺ )کی اطاعت پر کاربند رہو اگر تم واقعی مؤمن ہو!‘‘
اور اس کے بعد نہایت شاندار الفاظ میں اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر ہوا اور بتا دیا گیا کہ حقیقی مؤمن کون ہے. عجیب بات یہ ہے کہ سورۃ الانفال کا آغاز بھی اسی موضوع سے ہوا اور اس کے اختتام پر پھر یہی موضوع زیر بحث آیا ‘اور ان دونوں مقامات نے مل کرایمانِ حقیقی کی حد درجہ جامع و مانع تعریف کی صورت اختیار کر لی. چنانچہ آیات ۲تا۴میں فرمایا:
’’حقیقی مؤمن تو صرف وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل لرز اُٹھیں اور جب انہیں اس کی آیتیں سنائی جائیں تو اُن کے ایمان (اور یقین) میں اضافہ ہو‘اور اُن کا تمام تر بھروسہ اپنے ربّ ہی پر ہو. جو نماز قائم کریں اورہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کریں. یہی ہیں سچے مؤمن. اُن کے لیے اُن کے ربّ کے پاس مراتب ِعالیہ بھی ہیں اور مغفرت اور رزقِ کریم بھی!‘‘
اور آیت ۷۴ میں فرمایا:
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا‘ اور وہ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی تو یہی ہیں حقیقی مؤمن .اُن کے لیے (اللہ کی) مغفرت (کا وعدہ) بھی ہے اور باعزت رزق (کاوعدہ) بھی!‘‘
یہ گویا وہی بات قدرے شرح و بسط کے ساتھ ہے جو اجمالاً بیان ہوئی ہے سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ میں کہ:
’’مؤمن تو بس وہ ہیں جو ایمان لائیں اللہ اور اُس کے رسول پر‘پھر شک میں نہ پڑیں اور جہاد کریں اللہ کی راہ میں اپنے مالوںاور اپنی جانوں کے ساتھ . حقیقتاً یہی لوگ( دعوائے ایمان میں )سچے ہیں!‘‘
اس ابتدا اور انتہا کے مابین جو مضامین سورۃ الانفال میں بیان ہوئے ہیں اُن کا اجمالی جائزہ یہ ہے:
(۱) غزوۂ بدر کے حالات و واقعات کے ضمن میں ایک جانب تو آیات ۵ تا ۸ میں بعض مسلمانوں کی اس کمزوری کی نشاندہی کی گئی کہ جب آنحضورﷺ نے اہل ایمان کے حوصلے اور morale کا اندازہ کرنے کے لیے یہ دریافت کیا کہ شمال سے تجارتی قافلہ آرہا ہے اور جنوب سے قریش کا لشکر‘تو ہمیں کس جانب کا قصد کرنا چاہیے؟ تو انہوں نے قافلے پر حملہ آور ہونے پر اصرار کیا. حالانکہ اللہ تو اس کے ذریعے حق کا بول بالا کرنے اور کافروں کی جڑ کاٹ دینے کا فیصلہ کر چکا تھا. اور دوسری طرف آیات ۹ تا۱۴ میں ان خصوصی احسانات کا ذکر فرمایا گیا جو اُس معرکے کے دوران اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کیے‘ جن میں اہل ایمان کی مدد کے لیے ملائکہ کی غیر مرئی فوج کا بھیجنا بھی شامل ہے اور معرکے سے ایک رات قبل بارانِ رحمت کا نزول بھی ‘جس سے اہل ایمان نے طہارت و پاکی بھی حاصل کی اور جس سے میدانِ جنگ میں ان کی جانب کے حصے میں ریت بھی دب گئی‘ جس سے قدم جما کر لڑنے کا امکان پیدا ہوا. مزید برآں جنگ سے پہلے والی رات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے قلوب میں ایسا امن و اطمینان پیدا کر دیا کہ وہ آرام سے سوئے اور اگلی صبح پوری طرح چاق و چوبند ہو کر میدانِ جنگ میں صف بستہ ہو گئے. اور آیت ۱۷میں اس نصرت و تائید غیبی کا نتیجہ بیان کر دیا کہ اے مسلمانو! یہ جنگ اصل میں تم نے نہیں لڑی‘ ہم نے لڑی ہے‘سردارانِ قریش کو تم نے قتل نہیں کیا‘ ہم نے کیا ہے اور نبی اکرم ﷺ نے جو کنکریوں کی مٹھی بھر کر کفار کی جانب پھینکی تھی‘وہ انہوں نے نہیں‘ہم نے پھینکی تھی .گویا بقول علامہ اقبال : ؏ ’’ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مؤمن کا ہاتھ!‘‘
(۲) ساتھ ہی پہلے آیات ۱۸‘۱۹ میں قریش کو متنبہ کر دیا کہ اگر تم حق و باطل کے فیصلے کے طالب تھے اور یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ اللہ کی تائید و نصرت کس کے ساتھ ہے‘تمہارے ساتھ یا محمدﷺ اور اُن کے اصحاب کے ساتھ‘تو وہ فیصلہ تمہارے سامنے آچکا ہے. لہذا اب بھی باز آ جاؤ ‘اس میں بہتری اور خیریت ہے‘ بصورتِ دیگر جان لو کہ تمہاری جنگ محمدﷺ اور اُن کے ساتھی مہاجرین و انصار سے نہیں ‘اللہ سے ہے.
اور پھر آیات ۳۲تا ۳۸میں اُن کے کان پھر کھول دیے گئے کہ ہجرت سے قبل ہماری ڈھیل کے باعث تمہارے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے‘ حتیٰ کہ تم کھلم کھلا عذاب تک کا مطالبہ کر گزرتے تھے‘ حالانکہ اُس وقت تک ہمارے نبی تمہارے مابین موجود تھے. اب وہ امان اُٹھ چکی ہے لہذا عذاب کی پہلی قسط تمہیں مل گئی ہے. رہا تمہارا یہ خیال کہ تم بیت الحرام کے متولی اور مجاور ہو تو اس غر ّے میں بھی مت رہنا. تم نے توحید کے اس مرکز کی حرمت کو بھی اسے شرک کا گڑھ بنا کر بٹہ لگا دیا ہے اور اس کی تعمیر کے اصل مقصد یعنی نماز کے قیام کو بھی تم ضائع کر چکے ہو ‘یہاں تک کہ تم نے خود نماز کا حلیہ بگاڑ کر اُسے تالیوں اور سیٹیوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے. لہذا اب تم اللہ سے کسی رعایت کی امید نہ رکھو‘اور جان لو کہ اب تم خواہ کتنی ہی دولت صَرف کر لو اللہ کے دین کی راہ ہرگز نہ روک سکو گے.
(۳) مسلمانوں کو دعوتِ اسلامی کے اس نئے مرحلے کے تقاضوں کے ضمن میں جو ہدایات دی گئیں وہ حسب ذیل ہیں:
اوّلاً … یہ جان لو کہ یہ جنگ جاری رہے گی جب تک کہ کفر و شرک کا کامل قلع قمع نہ ہو جائے اور دین کل کا کل صرف اللہ کے لیے نہ ہو جائے! (آیت ۳۹)
ثانیاً… جنگ کے لیے ہمیشہ تیار رہو اور اپنے جملہ وسائل کو بروئے کار لا کر زیادہ سے زیادہ اسلحہ اور سامانِ جنگ فراہم کرو. اس ضمن میں جو خرچ تم کرو گے اُس کا پورا پورا اجر تمہیں اللہ سے مل جائے گا. (آیت ۶۰)
ثالثا ً… جن قبائل سے تمہارے معاہدے ہوں اُن کے معاہدوں کا لحاظ کرو ‘اگر وہ خیانت کا ارتکاب کریں گے تو اللہ اُن کے شر سے تمہیں بچائے گا. بہر صورت اگر تمہیں اُن کے خلاف اقدام کرنا ہی پڑے تو پہلے اُن کے معاہدے علی الاعلان اُن کے مُنہ پر دے مارو. بہرحال یہ صورت تمہارے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے کہ کسی سے معاہدہ بھی ہو اور اس کے خلاف در پردہ یا کھلم کھلا اقدام بھی کیا جا رہا ہو. (یہ مضمون تفصیل کے ساتھ آیات ۵۶ تا ۵۸ اور ۶۱ تا ۶۴ میں آیا ہے).
رابعاً… جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو میدانِ جنگ سے ہرگز مُنہ نہ موڑو‘ اِلاّ یہ کہ خود جنگ کی مصلحتیں کسی باقاعدہ پسپائی کی متقاضی ہوں. جو کوئی صرف جان بچانے کی غرض سے میدانِ جنگ سے فرار اختیار کرے گا اُس پر اللہ کا غضب نازل ہو گا اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہو گا. (آیات ۱۵‘۱۶) .ساتھ ہی عین جنگ کے موقع پر بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو‘ بلکہ ذکر کا اہتمام کرو. (آیت ۴۵)
خامساً… اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تمہاری قوت کا اصل راز اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی بے چون و چرا اطاعت اور اُن کی پکار پر بلا پس و پیش حاضر ہوجانے میں مضمر ہے اور اسی میں حیاتِ حقیقی کا را زمضمر ہے ‘خواہ بظاہر اس راہ میں موت کھڑی نظر آ رہی ہو. ساتھ ہی یہ تنبیہہ بھی کر دی گئی کہ ان اُمور میں ہر کوتاہی اصلاً اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت کے مترادف ہے ‘اور اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ انسان اللہ کے قانونِ ہدایت و ضلالت کی زد میں آ جائے اور اس کے دل پر مہر لگا دی جائے کہ پھر راہِ ہدایت کی جانب پلٹنا ممکن ہی نہ رہے. (آیات ۲۰‘۲۴‘۲۷)
(۴) مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا اُس کے ذیل میں نہایت حکیمانہ انداز یہ اختیار کیا گیا کہ پہلے تو آیت ۱ میں یہ حقیقت واضح کر دی گئی کہ یہ کل کا کل اللہ اور اُس کے رسول کا حق ہے .گویا دوسروں کو اس میں سے جو کچھ بھی مل جائے وہ اسے اللہ کا عطیہ سمجھیں نہ کہ اپنا حق. اس کے بعد آیت ۴۱ میں حتمی ضابطہ بیان کر دیا گیا کہ اموالِ غنیمت میں سے خمس یعنی پانچواں حصہ اسلامی حکومت کے خزانے میں جائے گا اور بقیہ کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا. یہ بالکل وہی انداز ہے جو سورۃ البقرۃ میں تحویلِ قبلہ کے ضمن میں اختیار کیا گیا ہے کہ پہلے فرمایا کہ:
وَ لِلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ ؕ (آیت ۱۱۵)
’’اورمشرق و مغرب سب اللہ کے ہیں ‘پس جدھر بھی تم رُخ کر لواُدھر ہی اللہ کا رُخ ہے!‘‘
اور اس طرح ذہنوں کو تبدیلی کے قبول کرنے کے لیے تیار کرنے کے بعد تحویل قبلہ کا حکم نازل فرما دیا گیا.
(۵) ایک اور پیچیدہ مسئلہ جو جنگ کے بعد پیدا ہوا ‘وہ قیدیوں کا تھا.اس کے ضمن میں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اختلاف ِرائے پیدا ہوا اَزروئے فرمانِ نبویؐ اللہ کے دین کے معاملے میں اُمت ِمحمدﷺ کے سب سے زیادہ سخت گیر انسان یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے.ان کی رائے یہ تھی کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے اور ہر مسلمان اپنے قریبی عزیز کو اپنے ہاتھوں قتل کرے‘جب کہ رسول اللہﷺ کے قول کے مطابق اُمت پر سب سے بڑھ کر شفیق و رحیم انسان یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ اُن کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے. ظاہر ہے کہ خود رحمۃٌ للعالمینﷺ کی رائے بھی لامحالہ اسی جانب تھی. اس ضمن میں آیات ۶۷‘۶۸ کی رُو سے وحی ٔالٰہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی موافقت میں نازل ہوئی. اگرچہ اسیرانِ جنگ سے زرِ فدیہ وصول کر کے رہا کر دینے کا جو فیصلہ آنحضورﷺ فرما چکے تھے اسے برقرار رکھا گیا اور مسلمانوں کے اطمینان کے لیے آیت ۶۹ میں واضح الفاظ میں فرما دیا کہ خواہ عام اموالِ غنیمت ہوں خواہ اسیرانِ جنگ سے وصول شدہ زرِ فدیہ‘اسے پورے انشراحِ صدر کے ساتھ حلال و طیب جانتے ہوئے کھاؤ اور معاندین کے مخالفانہ پروپیگنڈے سے کوئی تأ ثر قبول نہ کرو کہ یہ نبی اور اس کے ساتھیوں کے شایانِ شان نہیں. اس لیے کہ نبی اور اہل ایمان کے لیے کیا مناسب ہے اور کیا مناسب نہیں‘اس کا فیصلہ اصلاً اللہ کے ہاتھ میں ہے.
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ!