سورۃ التوبۃ کا دوسرا مشہور نام سورۂ براء ت ہے ‘یعنی وہ سورت جس میں مشرکین سے بیزاری اور لا تعلقی کا اعلان کیا گیا ہے.اور یہ بعض دوسرے ناموں سے بھی موسوم کی جاتی ہے‘ جیسے سورۂ مخزیہ‘سورہ ٔفاضحہ‘سورۂ مشر ّدہ اور سورہ ٔ عذاب ‘جو سب اس کی اسی صفت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکین عرب کے لیے اس دنیا میں آخری ذلت و رسوائی اور عذابِ استیصال کا اعلانِ عام کیا گیا ہے. یہ اہم سورت مصحف میں دسویں پارے کے رُبع سے لے کر گیارھویں پارے کے رُبع سے آگے تک پھیلی ہوئی ہے اور ۱۶ رکوعوں اور ۱۲۹ آیات پر مشتمل ہے.

مضمون کے اعتبار سے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‘ایک چھوٹا حصہ جو پہلے پانچ رکوعوں پر مشتمل ہے اور دوسرا بڑا حصہ جو بقیہ گیارہ رکوعوں پر مشتمل ہے‘اور ان میں سے پھرہر حصہ زمانہ ٔ نزول کے اعتبار سے دو حصوں پر مشتمل ہے. پہلے حصے میں نبی اکرم کی دعوت کے سرزمین عرب کی حد تک تکمیلی مرحلے کا ذکر ہے ‘جبکہ دوسرا حصہ آپ کی دعوت کے بیرونِ ملک یا بین الاقوامی مرحلے کے آغاز سے متعلق ہے. 

واضح رہے کہ نبی اکرم نے اپنی دعوتی سرگرمی کو آغازِ وحی اور حکمِ تبلیغ کے بعد تیرہ برس یعنی ہجرت تک صرف مکہ مکرمہ اور اُس کے اطراف و جوانب تک محدود رکھا‘اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے آنحضور کو مدینہ منورہ میں ایک چھوٹی سی شہری اسلامی ریاست عطا فرما دی اور اس طرح آپؐ کے لیے تمکن فی الارض کا سامان فراہم کر دیا تو آپؐ کی دعوت فطری طور پر دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی اور پورا جزیرہ نمائے عرب آپؐ کی دعوت و تبلیغ کا میدان بن گیا.

۶ھ میں صلح حدیبیہ واقع ہوئی اور اُس نے گویا ثابت کر دیا کہ اندرونِ عرب آنحضور کو فیصلہ کن اور مسلّمہ طور پر غالب حیثیت حاصل ہو گئی ہے. یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا. چنانچہ اب آپؐ نے بلا تأخیر ملوک و سلاطین کے نام دعوتی خطوط ارسال فرما کر اپنی دعوت کے بین الاقوامی مرحلے کا آغاز کر دیا‘ اور اس کے بعد سے آپؐ کی پیش قدمی بیک وقت دونوں محاذوں پر شروع ہو گئی‘اندرونِ ملک ِعرب بھی اور بیرونِ ملک بھی. اندرونِ عرب کے اعتبار سے ظاہر ہے کہ یہ دَو رآنحضور کے مشن کے اتمام و تکمیل کا دَور ہے‘ جب کہ بین الاقوامی سطح پر اسے آغاز و ابتداء سے تعبیر کیا جا سکتا ہے. اندرونِ ملک اتمام و تکمیل مقصد ِبعثت ِنبویؐ کے اس عمل میں اہم مراحل کی حیثیت حاصل ہے ایک جانب فتح مکہ اور غزوۂ حنین کو اور دوسری جانب فتح خیبر کو‘ اور بیرونِ ملک توسیعِ دعوت کے نتیجے میں واقع ہوا پہلے غزوۂ موتہ اور پھر سفر تبوک! سورۃ التوبۃ اُسی دَور میں مختلف مواقع پر نازل شدہ خطبات پر مشتمل ہے. چنانچہ اس کے پہلے پانچ رکوعوں میں زیر بحث آئے ہیں ایک جانب فسخ صلح حدیبیہ ‘پھر مکہ کی جانب پیش قدمی‘ پھر غزوۂ حنین ا ور بالآخر قریش مکہ اور مشرکین عرب کے ضمن میں آخری اقدامات‘اور دوسری جانب اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے بارے میں آخری فیصلہ. اور بقیہ گیارہ رکوع بحث کرتے ہیں تبوک کی مہم اور اُس کے دوران پیش آمدہ حالات و واقعات سے‘ جن کے ضمن میں بالخصوص منافقین کا کردار نہایت تفصیل سے زیر بحث آیا‘ جس کے نتیجے میں اس سورۂ مبارکہ کو منافقین کے ضمن میں قولِ فیصل کی حیثیت بھی حاصل ہو گئی اور اس موضوع کے اعتبار سے قرآن مجید کے ذروۃ السنام کی بھی!

اس سورۂ مبارکہ کے پہلے حصے میں ربط و ترتیب کے ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جس طرح سورۃ الانفال میں اموالِ غنیمت کے اہم مسئلے کو سورت کے درمیان سے نکال کر آغاز میں گویا بطور عنوان درج کر دیا گیا تھا اسی طرح اس سورۂ مبارکہ میں بھی مشرکین عرب سے اظہارِ بیزاری اور اعلانِ جنگ کو اس کی اہمیت کے پیش نظر درمیان سے نکال کر سورت کے عنوان کی حیثیت سے ابتدا میں درج کر دیا گیا ہے‘ ورنہ اصل ترتیب یہ ہے کہ اس سورت کے رکوع ۲۳ نزول کے اعتبار سے مقدم ہیں اور صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے قبل کسی موقع پر نازل ہوئے‘ جبکہ رکوع۱۴۵باہم مربوط ہیں اور اُن کا زمانۂ نزول ۹ھ کا موسم حج ہے.

دوسرے اور تیسرے رکوع کی آیات کے تاریخی پس منظر کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے‘ اور وہ یہ کہ صلح حدیبیہ کا اثر عرب کے تمام قبائل پر یہ پڑا کہ اب جبکہ عرب کی سب سے بڑی قوت یعنی قریش نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں ‘تو عافیت اسی میں ہے کہ جلد از جلد سب ہی آنحضور سے مصالحت کی کوئی صور ت پیدا کر لیں. اُدھر آنحضور کا دستِ مبارک حالات کی نبض پر تھا اور آپؐڈیڑھ دو سال قبل غزوۂ احزاب کے بعد ہی واضح فرما چکے تھے کہ اب مشرکین اور کفار میں قوت ِ مقاومت موجود نہیں ہے. ان حالات میں ظاہر ہے کہ ان سے معاہدے کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ کفر اور شرک کو خواہ مخواہ مزید مہلت دی جائے اور اللہ کے دین کے غلبے کی تکمیل کو بلا وجہ مؤخر کیا جائے. اِدھر یہ بات بھی بادنی ٰ تامل سمجھ میں آ سکتی ہے کہ صلح جو اور امن پسند لوگ ہر معاشرے اور جماعت میں موجود ہوتے ہیں اور بالخصوص مسلمانوں کی تو غالب اکثریت کا اسی مزاج کا حامل ہونا عین قرین قیاس ہے. ایسے حضرات کے لیے معاہدے کی کسی بھی پیش کش کو کسی بھی صورت میں ردّ کرنا ناقابل قیاس ہوتا ہے ‘اور اصل میں یہی عقدہ ہے جسے سورۃ التوبۃ کے دوسرے رکوع میں کھولا گیا ہے کہ اوّل تو شرک و توحید اور حق و باطل کے مابین بقائے باہمی (peaceful co-existance) کا کوئی تصور ویسے ہی خارج از بحث ہے. ثانیاً تم ان مشرکین کے الفاظ کے بجائے اُن کے کردار کو دیکھو اور اُن کی چکنی چپڑی باتوں پر نہ جاؤ ‘ بلکہ ان کے اب تک کے کرتوتوں کو یاد کرو! کیا یہ وہی نہیں ہیں جنہوں نے حق کی راہ روکنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا اور اس معاملے میں نہ کسی قرابت کا کوئی لحاظ کیا نہ کسی قول و قرار یا عہد و ذمہ کا. پھر کیا یہی نہیں ہیں جنہوں نے نبی اکرمکو مکہ سے نکالا اور پھر مدینہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا.

اب جبکہ حالات کا پانسہ پلٹ گیا ہے تو وہ معاہدوں کی چھاؤ ں میں پناہ لینا چاہتے ہیں. ان کے فریب میں مت آؤ اور اُن سے قتال کرو. اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کے کفر و اعراض کی سزا تمہارے ہاتھوں دے گا اور ان مسلمانوں کے قلوب کو ٹھنڈک عطا فرمائے گا جو اُن کے مظالم کی چکیوں میں پستے رہے ہیں. اس ضمن میں ایک اشکال اور بھی تھا اور وہ یہ کہ اہل عرب کے قلوب و اذہان میں حرم اور متولیانِ حرم یعنی قریش کی عظمت کا جو نقش صدیوں کے تعامل کے باعث قائم ہو چکا تھا‘وہ بھی کسی فیصلہ کن اقدام کی راہ میں حائل تھا. چنانچہ تیسرے رکوع میں اس نفسیاتی الجھن کا حل کیا گیا ہے کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا یا اُن کے متولی بننا مشرکین کا حق ہے ہی نہیں. یہ حق تو اصلاً صرف اہل ایمان و توحید کا ہے. گویا مشرکینِ مکہ کی حیثیت غاصبین کی ہے اور صرف حجاجِ بیت اللہ الکرا م کی خدمت یا مسجد حرام کے متولی ہونے سے اُنہیں کوئی ایسا تقدس حاصل نہیں ہوتا جو اُن کے خلاف کسی اقدام میں مانع ہو سکے اس طرح یہ دونوں رکوع گویا تمہید ہیں اس فیصلہ کن اقدام کی جس کے نتیجے میں بفضلہٖ تعالیٰ رمضان ۸ھ میں مکہ فتح ہوا ‘اور پھر اگلے ہی ماہ معرکۂ حنین میں کفر اور شرک کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی.

اس ضمن میں مسلمانوں کی جماعت کے ففتھ کالمسٹ عنصر یعنی منافقین کے نفاق کا پردہ بھی چاک کر دیا گیا. یہ لوگ موت کے خوف کے باعث جنگ و قتال سے تو گریزاں رہتے ہی تھے ‘اب ایک نیا مرحلۂ امتحان یہ پیش آیا کہ حق کی تلوار اہل کفر و شرک سے رشتہ داریوں ‘قرابتوں‘محبتوں‘دوستیوں اور در پردہ تعلقات کے بندھنوں کو کاٹنے کے لیے بے نیام ہوا چاہتی تھی. چنانچہ اوّلاً آیت ۱۶ میں واشگاف الفاظ میں فرما دیا گیا:

’’کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے‘حالانکہ ابھی تو اللہ نے دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون ہیں وہ لوگ جو جہاد کا حق ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول اور اہل ایمان کے سوا کسی سے کوئی دلی تعلق نہیں رکھتے!‘‘
اور پھر آیت ۲۴ میں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف اعلان کر دیا:

’’کہہ دو(اے نبیؐ !) کہ اگر تمہیں اپنے والد‘اپنے بیٹے‘اپنے بھائی‘اپنی بیویاں اور اپنے اعزہ و اقرباء اور وہ مال جو تم نے جمع کیے ہیں اور وہ کاروبار جن کے مندے کا خوف تمہیں لاحق رہتا ہے اور وہ مکان جو تمہیں بہت پسند ہیں‘ عزیز تر ہیں اللہ سے اور اُس کے رسول سے اور اُس کی راہ میں جہاد سے‘تو جاؤ انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے. اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہر گز راہ یاب نہیں کرتا!‘‘

فتح مکہ کے فوراً بعد ۸ھ کا حج آنحضور نے سابق انتظام ہی کے تحت ہونے دیا.ا گلے سال یعنی ۹ھ کے حج کے لیے آنحضور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں قافلۂ حج کو روانہ فرما چکے تھے کہ سورۃ التوبۃ کی وہ چھ آیات نازل ہوئیں جو اِس سورۂ مبارکہ کے آغاز میں درج ہیں اور جن میں مشرکین سے اعلانِ برا ء ت بھی کر دیا گیا اور حج کے موقع پر اس اعلانِ عام کا حکم بھی دے دیا گیا کہ حرمت والے مہینوں کے ختم ہوتے ہی مشرکین عرب کے خلاف آخری اقدام شروع کر دیا جائے گا‘ ازروئے الفاظِ قرآنی:

’’پس جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو‘ اورانہیں پکڑو‘گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اُن کی تاک لگاؤ. پھر اگر یہ توبہ کر لیں‘نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو انہیں چھوڑدو!‘‘ (آیت ۵)
چنانچہ آنحضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ آپؐ کے ذاتی نمائندے کی حیثیت سے حج کے اجتماع میں یہ اہم اعلان کر دیں. اس طرح گویا جزیرہ نمائے عرب کی حد تک اللہ کے دین کے غلبے کی تکمیل کے بعد مشرکین کے خلاف جنگی اصطلاح میں آخری 
mopping up operation شروع ہو گیا اور مشرکین عرب کے ضمن میں اس عذابِ الٰہی کی تکمیل ہو گئی جس کا آغاز غزوۂ بدر سے ہوا تھا.

سورۃ التوبۃ کے چوتھے اور پانچویں رکوع کی آیات بھی اغلباً متذکرہ بالا آیات سے متصل ہی نازل ہوئیں‘ اور ان میں ایک تو وارد ہوئی وہ اہم آیت جو قرآن مجید میں دو اور مقامات پر یعنی سورۃ الفتح اور سورۃ الصف میں بھی وارد ہوئی ہے اور جس میں آنحضور کے مقصد ِبعثت کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے‘ یعنی:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳
’’وہی ہے(اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول( )کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اسے تمام ادیان (یا پورے جنسِ دین) پر‘خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو!‘‘

اور دوسرے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے ساتھ بھی عام اعلانِ جنگ کر دیا گیا صرف اس رعایت کے ساتھ کہ اُن کے لیے اسلام اور تلوار کے علاوہ ایک تیسری صورت بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ اسلامی ریاست کے ماتحت ہو کر زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں اور مغلوب ہو کر جزیہ ادا کریں. گویا قانونِ ملکی (law of the land) اسلام ہی کا ہو گا‘اس کے تحت personal law کی حد تک وہ اپنے طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کر سکتے ہیں. واضح رہے کہ آئندہ کے لیے یہی ضابطہ مسلمانوں کا مستقل دستور العمل قرار پایا اور خلافت راشدہ کے دوران جب اسلامی افواج جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکلیں تو اُن کی جانب سے ہمیشہ یہی تین صورتیں پیش کی جاتی رہیں کہ ایمان لے آؤ ‘ ہمارے بھائی اور ہر اعتبار سے برابر ہوجاؤ گے‘ورنہ اسلام کی بالادستی قبول کر لو اور جزیہ ادا کرو‘تمہیں جان و مال کا مکمل تحفظ مل جائے گا‘بصورتِ آخر میدان میں آؤ ‘تلوار ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی. چوتھی کوئی صورت موجود نہیں ہے!

آنحضور کی دعوت کے بین الاقوامی مرحلے کا آغاز صلح حدیبیہ کے بعد سلاطین و ملوک کے نام دعوتی خطوط سے ہوا. بدبخت والی ٔ ایران خسرو پرویز نے آنحضور کے نامۂ مبارک کو چاک کر دیا. قیصر روم چونکہ عیسائی تھا لہذا اسے آنحضور کو پہچاننے میں قطعاً دیر نہ لگی‘لیکن اُس نے کوشش کی کہ جس طرح پہلے سلطنت ِ رومانے اجتماعی طور پر عیسائیت قبول کی تھی اسی طرح اب بھی اجتماعی طور پر اسلام لے آیا جائے تاکہ پور ا نظامِ مملکت جوں کا توں قائم رہ سکے.

لیکن اسے اس میں کامیابی نہ ہوئی اور اس طرح وہ خود بھی دولت ِ ایمان اور نعمت ِ اسلام سے محروم رہ گیا. عزیز مصر بھی اگرچہ ایمان تو نہ لایا تاہم اس نے آنحضور کے ساتھ اعزاز و اکرام کا معاملہ کیا. سب سے زیادہ اشتعال انگیز معاملہ والی ٔ بصریٰ شرحبیل بن عمرو نے کیا کہ آپ کے ایلچی کو قتل کر دیا‘ جس کے نتیجے میں پہلے جمادی الاولیٰ ۸ھ میں غزوۂ موتہ واقع ہوا اور پھر اگلے ہی سال یعنی ۹ھ میں تبوک کی مہم پیش آئی. یہ مرحلہ اسلام اور اہل ایمان کے لیے واقعتا نہایت کٹھن تھا‘ اس لیے کہ جنگ وقت کی عظیم ترین عسکری قوت سے تھی اور بظاہر احوال معاملہ ممولے اور شہباز کی لڑائی کا تھا. اس پر مستزاد یہ کہ عرب میں اجناس کی سخت قلت تھی اور قحط کا عالم تھا اور اب کھجور کی فصل تیار تھی اور اندیشہ تھا کہ اگر بروقت اُتاری نہ گئی تو یہ بھی تباہ ہو جائے گی. ادھر موسم انتہائی سخت گرمی کا تھا. الغرض اللہ تعالیٰ کی جانب سے اہل ایمان کے جذبۂ ایمانی کے امتحان کا بھرپور سامان کر دیا گیا تھا.

چنانچہ جس جس کے دل میں کوئی روگ تھا‘یا نفاق جڑ پکڑ چکا تھا یا جذباتِ ایمانی میں ادنی ٰ درجے کا اِضمحلال بھی پیدا ہو گیا تھا اُن سب کا معاملہ ظاہر ہو گیا. اندریں حالات سفر پر روانگی سے قبل‘سفر کے دوران اور پھر واپسی پر جو حالات و واقعات پیش آئے اور اُن پر تبصر وں کے طور پر جو خطباتِ الٰہی آیاتِ قرآنی کی صورت میں نازل ہوئے‘اُن میں ایمان‘ضعف ِایمان اور نفاق تینوں کے اوصاف و خصائص کی کامل وضاحت ابد الآباد تک کے لیے کر دی گئی‘صادق الایمان لوگوں کے لیے تو ‘جیسا کہ سورۃ الانفال میں واضح کر دیا گیا تھا‘ اس کے سوا کوئی راہ ہے ہی نہیں کہ وہ اللہ اور رسولؐ ‘ کی ہر پکار پر فوراً لبیک کہیں اور نہ کسی تعلق دُنیوی کو راستے میں حائل ہونے دیں نہ کسی خوف یا خطرے یا اندیشے کو‘اور اگر کوئی انہیں خطرات سے ڈرائے تو ان کا جواب یہ ہو کہ:

’’کہہ دو ہم پر کوئی چیز وارد نہیں ہوسکتی سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہو. وہ ہمارا مولیٰ ہے او راللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے اہل ایمان کو. کہہ دو کہ تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں کے سوا آخر اور کس چیز کی توقع کر سکتے‘ہو؟ (یعنی ہم سب شہید ہوجائیں تب بھی ہمارے نزدیک تو یہ سب سے بڑی کامیابی ہے اور اگر کامیاب لوٹ آئیں تو اسے تو تم بھی کامیابی قرار دو گے!)‘‘ (التوبۃ:۵۱۵۲
یہ اس لیے کہ بفحوائے الفاظِ آیت ۱۱۱:

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ
’’اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے جملہ اموال (پہلے ہی) جنت کے عوض خرید کر چکا ہے.‘‘

گویا ایک مؤمن صادق تو منتظر ہوتا ہے کہ اب جو یہ جان و مال اللہ کی امانت کے طور پر اس کے پاس ہیں‘ کب اللہ انہیں وصول فرما لے اور وہ امانت کے اس بارِگراں سے سبکدوش ہوجائے رہے کسی سبب سے وقتی طور پر ضعف ایمان میں مبتلا ہو جانے والے لوگ تو تین انصاری صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سرگزشت کے ذریعے واضح کر دیا گیا کہ ایسے لوگوں سے جب کوئی تقصیر ہو جاتی ہے تو وہ جھوٹے بہانے نہیں بناتے ‘بلکہ اپنا قصور تسلیم کر لیتے ہیں اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیں‘ چنانچہ اللہ بھی انہیں توبہ کی توفیق عطا فرماتا ہے اور بالآخر اُن کی توبہ قبول کر لیتا ہے. اس کے برعکس ہے معاملہ منافقین کا. یہ اپنی کوتاہیوں پر جھوٹے بہانوں‘حتیٰ کہ جھوٹی قسموں کا پردہ ڈالتے ہیں اور رفتہ رفتہ انہیں وہ لوگ برے لگنے لگتے ہیں جو اللہ اور اس کے دین کے غلبے کے لیے جان و مال کی بازیاں کھیل رہے ہوں. اس لیے کہ اس طرح اُن کی بے عملی اور بزدلی مزیدنمایاں ہوتی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ انہیں اسلام و ایمان اور مسلمین قانتین اور مؤمنین صادقین سے دشمنی اور عداوت ہو جاتی ہے اور تب اُن کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور ان کی محرومی اور بدبختی اس درجہ کو پہنچ جاتی ہے کہ اُن کے حق میں نبی کا استغفار بھی مفید نہیں رہتا ‘بفحوائے الفاظ قرآنی:

’’(اے نبیؐ !) آپ خواہ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں.اگر آپ ان کے لیے ستر بار استغفار کریں تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا‘یہ اس لیے کہ انہوں نے درحقیقت اللہ اور اُس کے رسولؐ دونوں کا کفر کیا ہے.اور اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا!‘‘ (آیت ۸۰)

اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ!
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ!