سورۂ یوسف جو قرآن مجید میں بارہویں پارے کے ثلٰثہ سے قبل شروع ہوتی ہے اور تیرھویں پارے کے رُبع کے بعد ختم ہوتی ہے‘ ۱۱۱ آیات اور ۱۲ رکوعوں پر مشتمل ہے‘ اور اس میں سوائے ابتدائی دو اور آخری دس آیات کے از اوّل تا آخر ایک ہی نبی یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات و واقعات بیان ہوئے ہیں. قرآن حکیم میں اس کی کامل مثال تو ایک ہی اور ہے ‘یعنی سورۂ طہٰ‘البتہ قریبی مثال ایک اور بھی ہے‘ یعنی سورۃ القصص. اور یہ دونوں اسی طرح کل کی کل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات پر مشتمل ہیں‘اور عجب اتفاق ہے کہ ان دونوں کا گہرا تعلق بنی اسرائیل کی تاریخ سے ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں یہ مصر میں داخل ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں اُن کا مصر سے نکلنا ہوا.

مزید برآں ان دونوں کے حالات میں بھی ایک عجیب مشابہت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اُن کے اپنے بھائیوں نے حسد کی بنا پر کنویں میں ڈالا‘ لیکن اللہ نے اپنے فضل سے انہیں مصر ایسے متمدن ملک کے دارالحکومت میں نہایت سربرآوردہ گھرانے میں پہنچا دیا. اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اُن کی والدہ نے دشمنوں کے خوف سے اللہ کے اشارے پر دریا میں ڈالا اور انہیں بھی اللہ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے فرعون کے محل میں پہنچا دیا. گویا دونوں کے حالات و واقعات کا اصل ماحصل یہ ہے کہ: 

وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰۤی اَمۡرِہٖ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱
یعنی’’اللہ اپنے ارادوں کی تکمیل اور اپنے فیصلوں کی تنفیذ پر پوری طرح قادر ہے ‘لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں.‘‘

اس میں گویا نبی اکرم اور آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لیے تسلی اوردل جوئی مضمر ہے کہ اِس وقت سر زمین مکہ میں جن نامساعد حالات کا تمہیں سامنا ہے اور جس قسم کی تکالیف اور مصائب نے تمہیں گھیر رکھا ہے ان سے دل شکستہ نہ ہوں‘اللہ قادر ہے اس پر کہ ظاہری مایوسی کی اس سیاہ رات کا پردہ چاک کر کے اُمید کی صبحِ روشن طلوع فرما دے اور تمہارے دشمنوں کی مخالفانہ تدابیر ہی کو تمہارے حق میں خیروبرکت اور کامیابی و کامرانی کا ذریعہ بنا دے. اس طرح پوری سورۂ یوسف گویا سورۂ ہود کے آخر میں وارد ہونے والی آیت:

وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ۚ (آیت ۱۲۰)
’’اور (اے نبیؐ !) یہ پیغمبروں کے قصے جو ہم تمہیں سناتے ہیں‘ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کرتے ہیں.‘‘

کی تشریح و تفصیل کی حیثیت رکھتی ہے.

چنانچہ واقعہ یہی ہے کہ مشرکین مکہ نے تو آنحضور کے مکہ سے ہجرت کر کے چلے جانے کو اپنی بڑی کامیابی سمجھا ہو گا‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی کو آپ کے تمکن فی الارض یعنی زمین میں قدم جمانے کا ذریعہ بنا دیا اور کل دس سال بعد آنحضور ‘فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے اور بعینہٖ وہی صورت پیش آئی جو لگ بھگ ڈھائی ہزار سال قبل پیش آئی تھی کہ جس طرح برادرانِ یوسف ؑ حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے شرمندگی اور خجالت کا مجسمہ بنے کھڑے تھے‘ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے کمالِ مروّت سے فرمایا تھا:

قَالَ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ؕ یَغۡفِرُ اللّٰہُ لَکُمۡ ۫ وَ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿۹۲
’’ آج تم پر کوئی گرفت نہیں‘ اللہ تمہیں معاف کرے ‘اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے ‘‘.

اسی طرح جب قریش کے چھوٹے بڑے بھی آنحضور کے سامنے ناکامی اور شکست خوردگی کی تصویر بنے کھڑے تھے تو حضور نے فرمایا تھا:

فَاِنِّیْ اَقُوْلُ لَـکُمْ مَا قَالَ یُوْسُفُ لِاِخْوَتِہٖ : لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْـیَوْمَ‘ اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ (۱(۱) یہ روایت کتب سیرت میں مختلف حوالوں سے نقل ہوئی ہے. علامہ البانی ؒ نے ڈاکٹر سعید رمضان البوطی کی کتاب فقہ السیرۃ پر اپنے نقد و تبصرے میں اسے ضعیف کہا ہے. ملاحظہ ہو : ص ۳۸۲’’ آج میں بھی تم سے وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا‘ آج تم پر نہ کوئی ملامت ہے نہ سرزنش‘جاؤ تم سب آزاد ہو!‘‘

الغرض سورۂ یوسف کا اصل سبق یہی ہے کہ بندۂ مؤمن اور داعی ٔ ‘ حق کو حالات کی نامساعدت و ناموافقت سے ہرگز ہراساں نہیں ہونا چاہیے‘اور اسے اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کیے چلے جانا چاہیے. رہے نتائج تو انہیں بالکلیہ اللہ‘کے حوالے کر دینا چاہیے‘وہ اپنی حکمت ِ بالغہ اور قدرتِ کاملہ سے جب چاہے گا کامیابی کی صورتیں پیدا فرما دے گا. ویسے بھی مؤمن کا اصل مطلوب و مقصود آخرت کی سرخروئی ہے.

اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات و واقعات کو 
’’ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے‘اس لیے مناسب ہے کہ اس موقع پر ان کا ایک خلاصہ بیان کر دیاجائے. 

حضرت یوسف علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے تھے.اُن کا شجرۂ نسب یہ ہے:یوسف بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو تو حجاز میں بیت اللہ کے جوار میں آباد کر دیا تھا‘ لیکن اپنے دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کو موجودہ شرقِ اُردن کے علاقے میں آباد کیا تھا. چنانچہ وہیں اُن کے فرزند حضرت یعقوب علیہ السلام آباد تھے. حضرت یعقوب علیہ السلام کے دو بیویوں سے بارہ بیٹے تھے‘جن میں دس بڑی بیوی سے تھے اور دو چھوٹی سے. چھوٹی بیوی سے ایک حضرت یوسف علیہ السلام تھے اور دوسرے ان کے حقیقی بھائی بن یامین. حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان دونوں سے (غالباً چھوٹے ہونے کی وجہ سے بھی)پیار زیادہ تھا.

لیکن خصوصاً حضرت یوسف علیہ السلام سے انہیں شدید محبت ان میں رُشد و سعادت اور ہونہاری کے آثار کی بنا پر تھی. حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس حسن ظن کی توثیق حضرت یوسف علیہ السلام کے ایک خواب سے بھی ہو گئی جس میں انہوں نے دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند اور سورج ان کے سامنے سربسجود ہیں. جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا یہ خواب اپنے والد ماجد کو سنایا تو انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ کی جناب میں پسندیدگی و برگزیدگی کی بشارت سنانے کے ساتھ ساتھ اس خواب کو بھائیوں کے سامنے بیان کرنے سے منع کر دیا‘مبادا وہ حسد کی آگ میں جلنے لگیں اور حضرت یوسف علیہ السلام کو کوئی گزند پہنچانے کی کوشش کریں. لیکن ان کی اس تمام احتیاط کے باوجود حسدکی چنگاری برادرانِ یوسف علیہ السلام کے دلوں میں بھڑک اُٹھی اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ اس کانٹے کو راہ سے کیسے ہٹایا جائے. بعض کا خیال تھا کہ انہیں قتل کر دیا جائے‘ لیکن سب سے بڑا جو نسبتاً شریف النفس تھا‘مصر ہوا کہ اس کے بجائے انہیں کسی کنویں میں پھینک دیا جائے. اس طرح وہ کسی قافلے کے ہاتھ لگ جائیں گے جو انہیں کسی اورملک میں لے جائے گا. اس طرح بھائی کی جان بھی نہ جائے گی اور راستے کا کانٹا بھی ہٹ جائے گا. چنانچہ اسی کے مطابق انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے اجازت چاہی کہ یوسف ؑ کو اُن کے ساتھ شکار پر بھیج دیں تاکہ وہ بھی کچھ کھیل کود لیں. حضرت یعقوب علیہ السلام نے پہلے تو پس و پیش سے کام لیا اور فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم اس کی جانب سے غافل ہو جاؤ اور اسے کوئی بھیڑیا پھاڑ ڈالے. لیکن پھر ان کے اصرار پر اجازت دے دی. انہوں نے اپنی قرارداد کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کو تو کنویں میں پھینک دیا اور ان کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا لائے اور والد کی خدمت میں وہی کہانی گھڑ کر پیش کر دی جس کا اندیشہ خود انہوں نے ظاہر کیا تھا. انہوں نے ان کی اس بات کو تو نہ مانا تاہم صبر کی روش اختیار کر لی.

اغلب گمان یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی پیدائش ۱۹۰۶ قبل مسیح میں ہوئی اور ۱۸۹۰ قبل مسیح میں جب آنجنابؑ کی عمر کا سترھواں سال تھا‘کنویں میں پھینکے جانے کا یہ واقعہ پیش آیا جس میں وہ تین دن رات رہے. واضح رہے کہ یہی مدت ہے جو آنحضور نے غارِ ثور میں بسر کی تھی.بہرحال تین دن کے بعد ایک قافلے کا گزر اُدھر سے ہوا اور ان کے سقے ّنے کنویں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام نکل آئے. قافلے والوں نے انہیں فروختنی مال سمجھ کر چھپا لیا.وہ مصر جا رہے تھے‘وہاں پہنچتے ہی انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جلدی سے اونے پونے بیچ ڈالا‘ مبادا ان کا کوئی دعوے دار پہنچ جائے اور انہیں لینے کے دینے پڑ جائیں.مصر میں غلاموں کی منڈی سے حضرت یوسف علیہ السلام کو خریدنے والا حکومت ِ مصر کا ایک بڑا عہدیدار تھا. اُس نے انہیں اپنی بیوی کے حوالے کیا اور تاکید بھی کر دی کہ اسے اچھی طرح رکھو‘ہو سکتا ہے کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو‘ بلکہ کیا عجب کہ اسے اپنا متبنیٰ ہی بنا لیں! اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی وقت کی سب سے متمدّن مملکت کے ایک بڑے عہدیدارکے گھر میں پرورش کا سامان کر دیا اور خود اُن کے مسند ِاقتدار تک پہنچنے کی راہ ہموار کر دی. سورۂ یوسف میں اس مقام پر وارد ہوئے ہیں وہ الفاظ جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے‘ یعنی: 

وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰۤی اَمۡرِہٖ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱
’’اور اللہ اپنے فیصلوں کی تنفیذ پر پوری طرح قادر ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں.‘‘

ُحضرت یوسف علیہ السلام جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو انہیں علم و حکمت سے نوازا اور نبو ّت سے سرفراز فرمایا اور دوسری جانب مردانہ حسن ووجاہت کا کامل مرقع بنا دیا‘ اور یہی چیز اُن کے لیے ایک نئی اور زیادہ مشکل آزمائش کا سبب بن گئی.عزیز مصر کے یہاں اندازاً چھ سال رہنے کے بعد وہ واقعہ پیش آیا کہ اس کی بیوی نے حضرت یوسف علیہ السلام کو گناہ کی دعوت دی جس کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے صاف ٹھکرا دیا. وہ بدنصیب عورت اس چوٹ سے مزید بپھر گئی اور تریاہٹ کے انداز میں اس پرتل گئی کہ یا تو حضرت یوسف علیہ السلام اس کے پسندیدہ راستے پر چلیں ورنہ وہ انہیں سخت سزا دلوائے گی یا قید خانے میں ڈلوا دے گی. اس مرحلے پر حضرت یوسف علیہ السلام نے خود بارگاہِ ربانی میں دعا کی کہ:

’’اے ربّ! جس چیز کی یہ لوگ مجھے دعوت دے رہے ہیں اس کی نسبت قید خانہ مجھے زیادہ پسند ہے‘ اور اگر تو نے ہی ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو کوئی عجب نہیں کہ میں ان کی جانب مائل اور جذبات کی رو میں بہہ جانے والوں میں سے ہو جائوں.‘‘ (آیت ۳۳اللہ نے ان کی یہ دعا قبول کر لی اور ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں ڈال دیے گئے.

قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کردیا‘اور جب لوگ ان کی شرافت سے متأثر اور خصوصاً ان کی خوابوں کی تعبیر بتانے کی صلاحیت کی بنا پر ان کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ انہیں توحید کی دعوت دیتے کہ:
’’اے میرے زنداں کے ساتھیو! (تم خود ہی سوچو کہ) کیا الگ الگ بہت سے ربّ بہتر ہیں یا اکیلا اللہ جو سب پر غالب و قاہر ہے؟ تم لوگ اسے چھوڑ کر جن کو پوجتے ہو اُن کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اَجداد نے رکھ چھوڑے ہیں‘ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نہیں اتاری.اختیار و اقتدار سب اللہ ہی کا ہے.اس نے حکم دیا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو. یہی دین قیم ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!‘‘ 
(آیات ۳۹۴۰

زنداں کے ساتھیوں میں سے ایک کو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کے خواب کی تعبیر کے ضمن میں بتایا کہ وہ جلد رہا ہو جائے گا اور شاہِ مصر کی ساقی گری پر مامور ہو گا.

تاریخی اعتبار سے یہ جاننا مفید ہے کہ اُس وقت مصر پر فراعنہ کا پانچواں خاندان حکمران تھا جنہیں چرواہے بادشاہ یا ‘ Hyksos Kings کہا جاتا ہے.یہ لوگ اغلباً عربی النسل تھے اور چونکہ خود مصر سے باہر سے آئے ہوئے تھے اس لیے ان کے دلوں میں باہر سے آنے والوں کے لیے ایک نرم گوشہ موجود تھا‘ اور غالباً یہی سبب ہے جس کی بنا پر بعد میں انہوں نے بنی اسرائیل کی حد درجہ پذیرائی کی. بہرحال ہوا یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے میں لگ بھگ سات سال ہو گئے تھے کہ ایک رات شاہِ مصر نے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر اُس کے درباریوں میں سے کوئی نہ بتا سکا تواچانک اس کے ساقی کو حضرت یوسف علیہ السلام یاد آئے اور وہ بادشاہ کی اجازت سے قیدخانے میں ان کے پاس حاضر ہوا اور اُن سے خواب کی تعبیر دریافت کر کے آیا. حضرت یوسف علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ خواب کی تعبیر بتائی بلکہ مصر پر جو مصیبت آنے والی تھی اُس سے بچائو کی تدبیر بھی بتا دی. بادشاہ اس سے بے حد متأ ثر ہوا اور اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو قیدخانے سے نکال کر نہ صرف یہ کہ اپنے خاص مصاحبین میں شامل کر لیا‘ بلکہ حکومت ِ مصر میں کسی نہایت اعلیٰ عہدے پر مقرر کر کے پیش آنے والی مصیبت سے نبٹنے کے لیے کلی اختیارات اُن کے حوالے کر دیے. جب حضرت یوسف علیہ السلام اُس عہدے پر فائز ہوئے اُس وقت ان کی عمر تیس برس تھی اور پورے اسّی سال وہ اس منصب پر فائزرہے.

جس مصیبت کی خبر حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر کے ضمن میں دی تھی وہ ایک خوفناک قحط تھا جس نے نہ صرف مصر بلکہ اطراف و جوانب کے ملکوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا. حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کے لیے غلے کا جو ذخیرہ کر لیا تھا اُس سے دُور دُور تک کے لوگوں کی جان بچانے کی صورت پیدا ہو گئی‘ اور یہی تقریب ہوئی برادرانِ یوسف ؑ کے مصر حاضر ہونے کی. وہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے پیش ہوئے تو آنجنابؑ نے تو انہیں پہچان لیا ‘لیکن اُن کے سان گمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ جس بھائی کو انہوں نے پندرہ بیس سال قبل کنویں میں پھینکا تھا وہی آج عزیزِ مصر کی صورت میں اُن کے سامنے موجود ہے. حضرت یوسف علیہ السلام نے ان پر رحم کھایا اور انہیں غلہ وغیرہ دیا‘لیکن اپنے آپ کو اُن پر ظاہر نہ کیا‘بلکہ اصرار کر کے اپنے بھائی بن یامین کو بھی مصر بلا لیا اور ایک ایسی تدبیر سے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے پیداکی‘ اُسے اپنے پاس روک لیا. یہ صورت حال جاری رہی‘ تاآنکہ وہ وقت بھی آیا جب برادرانِ یوسف ؑکے پاس غلہ خریدنے کے لیے پھوٹی کوڑی تک نہ رہی اور وہ حضرت یوسف علیہ السلام سے غلے کی بھیگ مانگنے پر مجبور ہو گئے. بھائیوں کا یہ حال حضرت یوسف علیہ السلام سے نہ دیکھا گیا اور انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو اُن پر ظاہر کر دیا بلکہ حکم دیا کہ والد ِماجد حضرت یعقوب علیہ السلام سمیت پورے خاندان کو لے کر مصر آ جاؤ اور یہیں سکونت اختیار کرلو! اور اس طرح اسرائیل و بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے تمام بیٹے اپنے اہل و عیال سمیت مصر منتقل ہو گئے‘ جہاں بادشاہِ وقت نے اُن کی خوب پذیرائی کی. مصر کے زرخیز ترین علاقے میں اُنہیں آباد کیا‘اور چونکہ بادشاہ 
حضرت یوسف علیہ السلام کا عقیدت مند تھا‘ لہذا انہیں مصر میں گویا پیرزادوں کی سی عزت وحیثیت حاصل ہو گئی. یہ دوسری بات ہے کہ ایک عرصے کے بعد جب مصر میں ایک قومی انقلاب آیا اورHyksos Kings کا خاتمہ ہو گیا تو بنی اسرائیل پر بھی مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جس سے ایک مدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے نجات دی.

سورۂ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے ابتلاء کے ساتھ ساتھ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ابتلاء اور صبر کا ذکر بھی نہایت سبق آموز طریق پر آیا ہے. انہیں حضرت یوسف علیہ السلام سے عشق کی حد تک محبت تھی‘ اور انہیں اللہ کی طرف سے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ بقید ِحیات ہیں. چنانچہ ہجر و فراق کا غم انہیں اندر ہی اندر کھاتا رہا ‘یہاں تک کہ جوشِ گریہ سے ان کی بینائی جاتی رہی‘ تاہم زبان سے ہر موقع پر ایک ہی جملہ ادا ہوا ‘یعنی:

فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَ اللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ ﴿۱۸﴾ 
’’پس اب صبر ہی بہتر ہے. اور اللہ ہی سے مدد مانگتا ہوں اس با ت پر جو تم ظاہر کرتے ہو.‘‘
اور: 
فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمۡ جَمِیۡعًا ؕ (آیت ۸۳)

’’پس اب صبر ہی بہتر ہے. شاید اللہ لے آئے میرے پاس اُن سب کو‘‘.
یعنی ہر حال میں صبر ہی اہل ایمان کے لیے صحیح لائحہ عمل ہے.اور جب گھر والوں نے حد سے زیادہ رنج و غم پر اُنہیں ٹوکا تو انہوں نے فرمایا:

اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (آیت ۸۶)
’’میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ اپنے اللہ ہی سے کرتا ہوں!‘‘

چنانچہ یہی صورت ہمیں سیرتِ نبی اُمی  میں نظر آتی ہے کہ جب آپؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا اور آپؐ ‘کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور بعض لوگوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو آپؐ نے فرمایا:
’’آنکھیں یقینا اشکبار ہیں اور دل غم زدہ ہے‘لیکن ہماری زبان پر اس کے سوا کچھ نہیں آئے گا کہ جس چیز میں اللہ راضی ہے ہم بھی اُسی پر راضی ہیں. اور اے 
ابراہیم! ہم تمہاری جدائی پر غم زدہ ہیں.‘‘ (۱

اور جب طائف میں آنحضور پر پتھروں کی بارش ہوئی اور آپ کا جسم مبارک لہولہان ہو گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ استہزاء اور تمسخر کی حد ہو گئی تو وہاں سے واپسی پر جو دلوں کو دہلا دینے والی دُعا آپؐ نے مانگی‘اُس کا آغاز اِن الفاظ سے ہوا کہ:
اَللّٰھُمَّ اِلَـیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُـوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ (۲

’’اے اللہ! تیری ہی جناب میں شکوہ کرتا ہوں اپنی قوت کی کمی اور وسائل کے فقدان اور لوگوں کے سامنے رسوائی کا.‘‘ 
الغرض سورۂ یوسف میں جہاں حضرت یوسف علیہ السلام کی شخصیت کی صورت میں ایک صابر و شاکر اور باہمت و باعفت نوجوان اور ایک اولوالعزم داعی ٔ‘ حق اور مبلغ توحید اور ایک صالح اور مدبر و منتظم حکمران کا کردار سامنے آتا ہے وہاں حضرت یعقوب علیہ السلام کی شخصیت کی صورت میں ایک حد درجہ رقیق القلب اور صاحب ِقلب ِمحزون در ویش کا کردار بھی سامنے آتا ہے جو اپنے غم واندوہ کو اندر ہی اند رپیتا ہے‘ اور اگر کوئی شکایت کرتابھی ہے تو صرف اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں.غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم کی سیرتِ مبارکہ میں یہ سب اوصاف بیک وقت جمع تھے. بالکل صحیح کہا جس نے کہا : ؎ 

حسن یوسف ؑ ‘ دَمِ عیسٰی ؑ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری!

سورۂ یوسف کے آغاز و اختتام پر بھی قرآن کے ایک کتابِ مبین اور منزل من اللہ ہونے کا بیان ہے‘ بلکہ آخری آیت میں تو خود قصۂ یوسف کو جو سورۂ یوسف میں بیان ہوا‘ قرآن کے وحی ٔالٰہی ہونے کی دلیل کی حیثیت سے پیش کیا گیا. اس لیے کہ ڈھائی ہزار سال قبل کے حالات و واقعات اس قدر صحت ووضاحت کے ساتھ عرب کا ایک اُمی ( ) کیسے بیان کر سکتا تھا: 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجنائز‘ باب قول النبی  انا بک لمحزونون- وصحیح مسلم‘ کتاب الفضائل‘ باب رحمۃ الصبیان والعیال وتواضعہ وفضل ذلک. 
(۲) سیرت ابن ہشام‘ بحوالہ تاریخ الطبری ۲/۳۴۵
مَا کَانَ حَدِیۡثًا یُّفۡتَرٰی وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾٪ 

’’یہ کوئی گھڑی ہوئی بات نہیں ‘بلکہ تصدیق ہے اس کی جو پہلے سے موجود ہے اور تفصیل ہے ہر چیز کی‘اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے.‘‘

’’مَا کَانَ حَدِیۡثًا یُّفۡتَرٰی ‘‘ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں کہ اس سورۂ مبارکہ کا ایک ربط و تعلق ہے سورۂ یونس اور سورۂ ہود دونوں سے‘اس لیے کہ ان دونوں سورتوں میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ . گویا ان تینوں سورتوں میں اصل نسبتِ زوجیت تو ہے سورۂ یونس اور سورۂ ہود کے مابین اور سورۂ یوسف ان دونوں کے ساتھ بطورِ ضمیمہ منسلک ہے. چنانچہ توحید‘معاد‘رسالت اور رسولوں کی قوموں پر ان کی دعوت سے اعراض و انکار کی پاداش میں عذاب ِ الٰہی کے ان مضامین کا ایک خلاصہ بھی اس سورۂ مبارکہ کے آخر میں درج کر دیا گیا ہے جو نہایت شرح و بسط کے ساتھ سورۂ یونس اور سورۂ ہود میں بیان ہوئے اور اس ضمن میں دو آیتیں نہایت اہم وارد ہوئی ہیں. ایک وہ جس میں شرک کی ہمہ گیری کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ اکثر لوگ اللہ کو نہیں مانتے مگر کسی نہ کسی نوع کے شرک کے ساتھ‘ اور دوسری میں آنحضور  سے کہلوایا گیاکہ: 

قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۰۸
’’کہہ دو‘یہ میری راہ ہے‘میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ‘میں بھی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے میری پیروی کی. اللہ پاک ہے‘ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں.‘‘ 

وَآٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ!