سورۃ الرعد میں قصص الانبیاء یا انباء الرسل کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے اور پوری سورت جو ایک مسلسل اور مربوط خطبہ نظر آتی ہے ‘توحید‘معاد اور رسالت کے اساسی مباحث پر مشتمل ہے‘ اور ان میں سے بھی زیادہ زور ایمان بالآخرت اور ایمان بالرسالت پر ہے. اگرچہ آفاق وانفس کے جن شواہد سے قیامِ قیامت اور بعث بعد الموت پر استدلال کیا گیا ہے‘ ان سے ضمنی طو رپر توحید کا اثبات بھی ہوتا چلا جاتا ہے.

پہلی آیت میں قرآن مجید کی حقانیت کا بیان ہے.چنانچہ فرمایا گیا:

’’ا ل م ر . یہ کتابِ الٰہی کی آیات ہیں.اور (اے نبیؐ !) جو کچھ آپ کے ربّ کی جانب سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ سرتا سرحق ہے ‘لیکن اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں.‘‘

اس کے بعد تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے شواہد کی جانب توجہ دلا کر آیت ۵ میں بڑے دلنشین پیرائے میں فرمایا:

’’اور اگر تعجب کرنا ہی چاہو تو قابل تعجب ہے (ان منکرین قیامت )کا یہ قول کہ کیا جب ہم مٹی ہو کر مٹی میں مل جائیں گے تو پھر از سرِ نو زندہ کر دیے جائیں گے؟ یہ 
وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کا کفر کیا ہے ‘اور اُن کی گردنوں میں طوق ہیں‘ اور یہ جہنم والے ہیں ‘جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے!‘‘

حاصل کلام یہ کہ جو شخص اللہ ہی کو نہ مانے یا اُس کی قدرت ِ مطلقہ پر یقین نہ رکھتا ہو اُس کی بات دوسری ہے‘ لیکن جو اللہ کو بھی مانتا ہو اور اس کے ’’عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ‘‘ ہونے پر بھی یقین رکھتا ہو ‘پھر بھی بعث بعد الموت کے بارے میں استعجاب یا استبعاد کا اظہار کرے تو اس کی حالت واقعتا قابل تعجب ہے. اور جو کوئی یہ کرتا ہے وہ گویا اپنے ربّ اور اُس کی صفاتِ کاملہ کا انکار کرتا ہے.

اس کے بعد پھر اللہ کی قدرتِ کاملہ اور علم کامل کا بیان ہے‘ اور پھر آیت ۱۱ میں عمرانیاتِ انسانی کا وہ زرّین اور اٹل اُصول بیان ہوا ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ 

جس کا سرسری مفہوم تو وہ ہے جو اس مشہور شعر میں بیان ہوا کہ ؎ 
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا!

لیکن اصل مفہوم یہ ہے کہ انسانوں کے خارج کے احوال ان کے باطن کی کیفیات کے تابع ہیں‘ اور اگر کسی قوم کے لو گ اپنی شخصیتوں کی اندرونی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کو تیار نہ ہوں تو ان کے خارجی حالات میں بھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی. واضح رہے کہ علامہ اقبال مرحوم نے قرآن حکیم کی تأثیر کا یہی نقشہ کھینچا ہے کہ یہ انسانوں کے باطن میں سرایت کر جاتا ہے جس سے ان کے اندر کی دنیا میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے اور یہی باطنی انقلاب ہے جو تمہید بنتا ہے خارجی و ظاہری حتیٰ کہ عالمی انقلاب کی . ؎ 

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود!

عمرانیاتِ انسانیہ کا ایک دوسرا اہم اُصول آیت ۱۷ میں بیان ہوا ہے کہ جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب بارش ہوتی ہے اور پہاڑی علاقوں میں وادیاں ندیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں تو پانی کے اُوپر بہت سا جھاڑ جھنکاڑ اور جھاگ نظر آتا ہے‘ حالانکہ اس کی حقیقت کوئی نہیں ہوتی‘ اصلاً مفید تو وہ پانی ہے جو اُس کے نیچے بہہ رہا ہے‘خواہ وہ نظرنہ آرہا ہو. اسی طرح جب سنار سونے یا چاندی کو صاف کرنے کے لیے کُٹھالی میں تپاتا ہے تو اس میں بھی بہت سا جھاگ اُٹھتا ہے جس میں سوائے میل کے کچھ نہیں ہوتا‘ بالکل اسی طرح اس عالم انسانی میں بھی حق و باطل کے مابین ایک مسلسل تصادم اور ٹکراؤ جاری رہتا ہے‘ جس سے کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ گویا باطل غالب آ گیا اورچہار طرف اس کا ڈنکا بجنے لگا ‘لیکن حقیقت میں یہ بھی بس جھاگ ہی کے مانند ہوتا ہے .اس لیے کہ زمین میں قرار وہی چیز پکڑتی ہے جو واقعتا مفید و نافع ہو ‘اور یہ معاملہ ظاہر ہے کہ صرف حق کا ہوتا ہے‘ لہذا بالآخر حق ہی کا بول بالا ہوتا ہے اور باطل نسیاً منسیاً ہوجاتا ہے.

سورۃ الرعد کا تیسرا رکوع سورۃ البقرۃ کے تیسرے رکوع سے بڑی گہری مشابہت رکھتا ہے اور یہ الفاظ تو جوں کے توں بغیر کسی ایک شوشے کے فرق کے آئے ہیں کہ:

وَ الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ (آیت ۲۵)
’’اور وہ لوگ جو توڑتے ہیں اللہ کے عہد کو اس کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد‘اور کاٹتے ہیں اُسے جسے اللہ نے حکم دیا ہے جوڑنے کا ‘اور فساد مچاتے ہیں زمین میں.‘‘

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان الفاظ میں بھی انسانی اجتماعیات کا یہ اہم اُصول بیان ہوا ہے کہ معاملاتِ انسانی کے سارے بگاڑ کی جڑ اور بنیاد دو چیزیں ہیں‘ ایک اللہ کے ساتھ جو عہد ِاَلست انسان نے کیا تھا اس کو نظر انداز کر کے اپنی من مانی کرنے پر اُتر آنا اور دوسرے رحمی رشتوں کو جوڑنے کے بجائے کاٹنے پر آمادہ ہو جانا! پہلی چیز سے اللہ کے ساتھ تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور دوسری سے حقوق العباد کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے. سورۃ البقرۃ کے ساتھ اس اہم مشابہت سے یہ بھی رہنمائی ملتی ہے کہ یہ سورت ہجرت سے متصلاً قبل ہی کے زمانے میں نازل ہوئی ہو گی! سورت کے آخر میں زیادہ زور نبوت و رسالت کے موضوع پر ہے. چنانچہ آخری آیت میں فرمایا گیا:

’’اور یہ کافر کہتے ہیں تم ہرگز رسول نہیں ہو‘کہہ دو کہ میرے اور تمہارے مابین اصل گواہ تو اللہ ہی ہے. البتہ جن کے پاس کتاب کا کچھ علم ہے (یعنی یہود و نصاریٰ) وہ بھی جانتے ہیں (کہ میں رسول ہوں!)‘‘

اور اس سے پہلے بظاہر آنحضور کو خطاب فرمایا گیا ہے‘اگرچہ رُوئے سخن تمام تر کفار کی جانب ہے. گویا اُن سے کہا جا رہا ہو کہ: رہا تمہارا یہ اعتراض کہ یہ تو عام انسانوں کے مانند ہیں اور اُن کی بیوی بھی ہے اور اولاد بھی ‘تو اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو کہ ہم نے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے وہ سب انسان ہی تھے اور اہل وعیال والے تھے. رہا تمہارا یہ مطالبہ کہ وہ کوئی حِسّی معجزہ کیوں نہیں دکھاتے تو یہ معاملہ ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں‘اس کا سارا دارومدار ہم پر ہے. باقی اگر تمہاری آنکھوں پر پردے نہیں پڑ گئے ہیں تو دیکھ لوکہ ہمارے نبیؐ ‘کی دعوت اطراف واکنافِ عرب میں پھیل رہی ہے. گویا یہ دعوت تمہارے چاروں طرف سے گھیرا تنگ کرتی ہوئی بڑھی چلی آ رہی ہے. اگر اب بھی آنکھیں نہ کھولو گے تو بہرحال اللہ کا فیصلہ تو اٹل ہے‘حق کا تو بول بالا ہو کر ہی رہے گا. البتہ تم اپنی محرومی و بدبختی پر اللہ کی جانب سے آخری مہرِ تصدیق ثبت کرا لو گے.