پاکستان میں اِسلامی اِنقلاب کی ضرورت و اہمیت اور طریق کار

پاکستان میں اسلامی انقلاب کے ذکر سے پہلے چند تمہیدی باتوں کا جاننا ضروری ہے. پہلی بات یہ کہ پاکستان کی بقا اور استحکام صرف اور صرف اسلام سے وابستہ ہے. ہمارے پاس اسلام کے سوا اس ملک کی بقا اور استحکام کے لئے کوئی اور بنیاد سرے سے موجود نہیں ہے… اب یہ بات خود ایک مستقل موضوع ہے کہ تحریک پاکستان کا پس منظر کیا تھا! یہ ملک بنا کیوں تھا! اس کے محرکات اور عوامل کیا تھے! اس کی اساسات کیا ہیں!… پھر یہ کہ مختلف ممالک کے استحکام اور بقا کے لئے کون کون سے عوامل سہارا دیتے ہیں اور اس کی تقویت کا باعث بنتے ہیں! ان میں سے ایک ایک عامل کاجائزہ لے کر یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ دُنیا کے عام ممالک کو اپنے استحکام اور بقا کے لئے جو سہارے دستیاب ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ہمارے پاس موجود نہیں ہے. ہمارے پاس جو واحد سہارا ہے وہ ہمارا دین ہے. (۱ہمارے بارے میں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ؏ کافر نتوانی شد ناچار مسلماں شو. (ہم کافر ہو ہی نہیں سکتے، ہمیں تو لامحالہ مسلمان ہونا پڑے گا). 

دوسری بات بھی، جو اپنی جگہ ایک مستقل موضوع ہے، یہ ہے کہ پاکستان میں اسلام نہ انتخابی طریق سے آ سکتا ہے اور نہ اس ’’ضیائی طریق‘‘ سے آ سکتا ہے جو سوا سات سال سے ہمارے ملک میں چل رہا ہے. 
(۲اس کے لئے واحد راستہ انقلاب کا راستہ ہے. اب اس کے لئے بھی دلائل و شواہد چاہئیں. انتخابات میں بھی بعض لوگ اسلامی نظام کے قیام کے لئے نیک نیتی سے حصہ لیتے ہیں کہ اس طریق سے اسلام کی سربلندی کے لئے کام کریں. انتخابات میں حصہ لینے والوں میں یقینا ایسے لوگ بھی ہوں گے جو نہایت خلوص کے ساتھ اسلامی نظام کے قیام و نفاذ کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسی انتخابی طریق کار پر عمل پیرا رہے ہیں اور رہیں گے. لیکن مجھے قوی اور مستحکم دلائل کی بنیاد پر اس سے شدید اختلاف ہے. میرے نزدیک پاکستان میں اسلام اگر آ سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف انقلابی عمل کے ذریعے سے ہی آ سکتا ہے.

تیسری بات یہ کہ جب پاکستان کی غالب آبادی سُنّی ہے تو ظاہر بات ہے کہ یہاں جو بھی انقلاب آئے گا اور اس کے نتیجہ میں یہاں جو بھی نظام قائم ہو گا وہ سُنّی تصورِخلافت ِ عامہ پر مبنی ہو گا نہ کہ شیعی تصورِ امامت ِ معصومہ پر… یہ دونوں تصورات ایک دوسرے کی ضد ہیں. ان کو باہم دگر 
(۳کسی طور پر بھی ملایا نہیں جا سکتا.

چوتھی بات یہ ہے کہ وہ انقلاب اگر آئے گا تو خالصتاً اس نہج پر آئے گا کہ جس نہج پر 
(۱) الحمدللہ کہ اس موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی مفصل تصنیف ’’استحکام پاکستان‘‘ کے عنوان سے موجود ہے.

(۲) واضح رہے کہ یہ تقریر ۵ ؍ اکتوبر ۱۹۸۴ء کو کی گئی تھی جب کہ صدر ضیاء الحق کا طویل دور حکومت ابھی جاری تھا جس کا آغاز انہوں نے 5؍جولائی1977ء کو نفاذ اسلام کے وعدے کے ساتھ مارشل لاء لگا کر کیا اور اس کا اختتام 17؍اگست1988ء کو بحیثیت صدر فضائی حادثے میں ان کی ہلاکت پر ہوا. 

(۳) ایک دوسرے کے ساتھ 
محمد رسول اللہ  نے انقلاب بپا کیا تھا. امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا یہ قول منقول ہے کہ ’’لاَ یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ یعنی ’’اس امت کے آخری حصہ کی اصلاح نہیں ہو سکے گی مگر صرف اس طریق پر کہ جس پر اس کے پہلے حصہ کی اصلاح ہوئی تھی‘‘… اس قول کے متعلق میرا تأ ثر اتنا یقینی ہے جتنا اس پر کہ کل سورج طلوع ہو گا. پھر یہ کہ اس کارگاہِ عالم کی زندگی کا آخری دور شروع ہو چکا ہے.حالات اس رخ پر جا رہے ہیں جن کی خبر نبی اکرم  نے دی تھی.

پانچویں بات یہ کہ آخری دور میں اسلام کے عالمی غلبہ کی جو خبرالصادق و المصدوق  نے دی تھی، اس کا بھی عمل یقینا شروع ہو گا. البتہ یہ کہاں سے شروع ہو گا اور کس خطہ ارضی کو یہ سعادت نصیب ہوگی! یہ ہم نہیں جانتے. یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے. آپ کو معلوم ہے کہ مکہ سے مایوس ہو کر نبی اکرم  نے اپنے طور پر طائف کا انتخاب فرمایا تھا لیکن طائف میں جو کچھ حضور  کے ساتھ ہوا وہ کون نہیں جانتا. یومِ طائف کو نبی اکرم  نے اپنی حیات ِ طیبہ کا سخت ترین دن قرار دیا تھا. وہاں سے آپ  کو ناکام واپس آنا پڑا… لیکن اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا مدینہ منورہ کا. حضور  کے قدم مبارک وہاں پہنچے بھی نہیں کہ وہاں انقلاب آ گیا. تمہیداً چھ افرادحج کے موقع پر ایمان لائے. اگلے سال ان میں سے پانچ اور سات دوسرے افراد یعنی کل بارہ افراد حاضر خدمت ہو گئے. انہوں نے نبی اکرم  کے ہاتھ پر بیعت کی… جسے کتب ِ سیرتِ مطہرہ میں بیعت ِ عقبہ (۱اولیٰ کہا جاتا ہے … اور درخواست کی کہ ہمیں اپنا کوئی جان نثار شاگرد دیجئے جو ہمیں قرآن پڑھائے اور یثرب میں (جو مدینہ منورہ کا پہلا نام ہے) دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دے. لہذا حضور  نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ جانے کا حکم دیا. حضرت مصعب ؓ کی ایک سال کی تعلیمِ قرآن اور دعوت و تبلیغ کے نتیجہ میں اگلے سال بہتر (۷۲) مرد او ر تین خواتین کل پچھتر (۷۵) افراد نے آکر نبی اکرم  کے دست ِ مبارک پر بیعت کی اور یہ بیعت ہجرت کی تمہید بن گئی. اسے بیعت ِ عَقَبہ ثانیہ سے موسوم کیا جاتا ہے. ان (۱) پہاڑ کی گھاٹی پچھتر انصار رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ حضورآپ  ہمارے یہاں تشریف لایئے. اگر قریش یثرب پر حملہ آور ہوں گے تو ہم آپ  کی اس طرح حفاظت کریں گے جیسے اپنے اہل وعیال کی کرتے ہیں. بعد ہٗ جب حضور  ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں استقبال کی تیاریاں تھیں. کئی دن سے لوگ روزانہ شہر سے باہر آ کر آپ  کی تشریف آوری کے منتظر رہتے تھے. یہاں مکہ میں قریش خون کے پیاسے ہیں جہاں تیرہ برس حضور  نے بنفس نفیس دعوت دی. یہاں تو نبی اکرم  اور حضرت ابوبکر ؓ کو تین دن رات غارِ ثور میں روپوش رہنا پڑا. پھر یہ کہ تعاقب ہو رہا تھا. سراقہ بن مالکؓ جو بعد میں دولت ِ ایمان سے بہرہ مند ہو گئے دو مرتبہ قریب پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر حفاظت فرمائی.مکہ کا حال تو یہ ہے اور اہل مدینہ سراپا انتظار آپ کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں اور آپ  کا وہاں ایک بے تاج بادشاہ کی حیثیت سے داخلہ ہورہا ہے.

تو یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی قدرت میں ہے کہ وہ کس جگہ کو سعادت عطا فرمائے، کون سے مقام کو چن لے. یہ اسی کا انتخاب ہے.ہم نہیں جانتے کہ اسلام کی نَشْأَۃُ ثَانِیہ اور عالمی سطح پر دین حق کے غلبہ کا آغاز کس ملک سے ہو گا! لیکن یہ بات پورے یقین و وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آخری دور کے بارے میں جن واقعات و حالات کی خبریں احادیث ِ صحیحہ میں دی گئی ہیں وہ دور آ چکا ہے، اس کا آغاز ہو گیا ہے. کسی نہ کسی خطہ ارضی کو یہ سعات حاصل ہو کر رہے گی کہ اسے اللہ تعالیٰ صحیح اسلامی انقلاب کے لئے منتخب فرما لے… اور یہ انقلاب بالکل اسی نہج پر آئے گا جس نہج پر برپا فرمایا تھا محمد رسول اللہ  نے. اِن شاء اللہ تعالیٰ کہیں نہ کہیں اسی نہج پر انقلاب آئے گا جو عالمی سطح پر غلبۂ دین کی تمہید بنے گا. ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ پاکستان کا یہ خطہ ارضی، جو حقیقت کے اعتبار سے مملکت خداداد ہے، یہ ہمارے قوت ِ بازو اور ہماری جدوجہد کا نتیجہ نہیں ہے، اسے اللہ تعالیٰ اس سعادت کے لئے قبول فرما لے. بظاہرِ احوال تو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سامنے آتے ہیں، پھر اُمید بندھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی چیز بعید نہیں ہے. اس کی شانِ والاتبار یہ ہے یُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ اسے ہر شے پر قدرت حاصل ہے، وہ شر سے خیر برآمد کرتا ہے جس کا کہیں سان گمان تک نہیں ہوتا. لہذا ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل اور قدرت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے. البتہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم معروضی طور پر(Objectively) غور کریں اور سمجھیں کہ انقلاب کا ’’محمدی  طریق‘‘ ہے کیا؟