انقلابی عمل میں تیسرا مرحلہ ٹریننگ یعنی تربیت کا ہے… جو ہر انقلابی عمل کی ایک ناگزیر ضرورت ہے. ظاہر بات ہے کہ اگر انقلابی کارکنوں کی تربیت نہ ہو تو وہ خام ہیں، کچے ہیں. تربیت ہو گی تو وہ پختہ ہوں گے، بقول اکبر الٰہ آبادی ؎
تو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر! 

کچے اور خام لوگوں کو جمع کر لیں گے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگلے مرحلہ میں جا کر جواب دے جائیں گے. وہ خالی کارتوس ثابت ہوں گے اور ٹھس ہو کر رہ جائیں گے. یہاں ضرورت ہے کہ ہر کارکن پختہ ہو. اس بات کو علامہ اقبال نے اپنے انداز میں خوب بیان کیا ہے ؎ 

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اِک انبار تُو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِبے زنہار


(۱تُو یہی وجہ ہے کہ ہر انقلابی پارٹی کے Training Camps ہوتے ہیں. (۱) ایسی تلوار جس سے پناہ نہ مل سکے تاہم یہ بات اہم ہے کہ یہ تربیت انقلاب کے نظریہ اور فکر کی مناسبت سے ہو گی. اگر انقلاب خالص مادی اقدار والا ہے تو ان کارکنوں کی روحانی تربیت کرنا بیکار ہے. لیکن اگر پیش نظر ایسا انقلاب ہے جس کے اہم ترین ابعاد (Dimensions) اخلاقی اور روحانی ہیں تو تربیت میں ان پہلوؤ ں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے. اگر یہ چیزیں انقلابی کارکنوں میں نہیں ہوں گی تو انقلاب کے کامیاب ہونے کے نتیجہ میں کہاں سے آ جائیں گی؟… لہذا ایسے انقلاب کے کارکنوں کے لئے اخلاقی او روحانی تربیت بھی لازمی ہو گی بلکہ اس کو اَقدمیت و اوّلیت کا درجہ حاصل ہو گا.

پس یہ ابتدائی تین مرحلے ہیں. ان تینوں کا حاصل یہ ہے کہ تربیت یافتہ کارکنوں پر مشتمل ایک انقلابی جماعت وجود میں آ جائے جو ایک طاقت اور ایک قوت بن جائے!! 

انقلابی عمل کا جزوِلاینفک: تصادم

انقلابی عمل کے اگلے تین مرحلوں کا جامع عنوان ہے ’’تصادم‘‘… لفظ تصادم اگرچہ ناپسندیدہ ہے، اچھا نہیں لگتا اور امن پسند لوگ اس سے ناگواری محسوس کریں گے لیکن یہ بات طے ہے کہ انقلاب تصادم کے بغیر نہیں آتا. ؏ ’’جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟‘‘ مذہبی اصلاح کا کام کرنا ہو تو کسی تصادم کی ضرورت نہیں ہے. صرف عام نوعیت کی روحانی تربیت گاہیں کھولنی ہوں اور خانقاہی نظام بنانا ہو تب بھی کسی تصادم کی ضرورت نہیں ہے، خانقاہ میں کوئی مربی، کوئی شیخ بیٹھے ہیں، جو وہاں خود چل کر آئے گا اسے وہ اپنے تربیتی پروگرام میں شامل کر لیں گے، کوئی تصادم نہیں ہو گا. لیکن اگر نظام بدلنا مقصود و مطلوب ہو اور پھر تصادم سے بھی گریز ہو تو یہ ممکن نہیں.ـ یہ تو بالکل ایسی بات ہے جیسے دو متضاد چیزوں کو جمع کرنے کی خواہش ہو… یہ خواہش اپنی جگہ کتنی ہی اچھی ہو لیکن یہ محالِ مطلق ہے. تصادم تو انقلاب کے لوازم سے ہے.

پھر یہ ایک بدیہی امر 
(۱ہے کہ تصادم کا آغاز اصل میں انقلابی جماعت کرتی ہے. اس لئے کہ ایک جگہ ایک نظام قائم ہے. جیسا بھی ہے، وہ چل رہا ہے . اگر ظالمانہ، (۱) ظاہر استبدادی (۱اور استحصالی ہے تو مظلوم طبقات اس نظام کو برداشت اور تسلیم (Reconcile) کئے ہوئے ہیں. ان حالات میں ایک جماعت ابھرتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ نظام غلط ہے، ہم اس کو بدل کر رہیں گے، تو درحقیقت تصادم کا آغاز اس جماعت نے کیا. اس نے اس نظام کو غلط قرار دے کر اس کو بدلنے کے عزم کا اظہار کیا جو وہاں ایک طویل عرصہ سے چلا آ رہا ہے، جس کے ساتھ لوگوں کی ا قدار اور مفادات وابستہ ہیں، جو ان کے یہاں قابل احترام روایات کا درجہ رکھتا ہے. وہ انقلابی جماعت کہتی ہے کہ یہ غلط نظام ہے. گویا کہ تصادم کا آغاز اصلاً انقلابی جماعت کی طرف سے ہوتاہے. اب اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے اس کے تین مدارج (Phases) ہیں.