توحید کے متضمنات میں سب سے پہلی چیز حاکمیت انسانی کی کلی نفی ہے. یہ سب سے بڑا، سب سے عظیم انقلابی نظریہ ہے جس تک انسان کا اپنا ذہن رسائی کر ہی نہیں سکتا. (۱) مشمول، وہ لازمی تصورات جو نظریہ توحید کے ساتھ اس طرح شامل ہیں کہ الگ نہیں کئے جا سکتے.
(۲) ظاہر، جو فطری طور پر معلوم ہو اور جس کا سمجھنا یا سمجھانا غوروفکر کا محتاج نہ ہو. اس کا علم صرف وحی الٰہی کے ذریعے ہی سے حاصل ہونا ممکن ہے. اس بات کو پہلے بھی مشرکین نے مانا ہے اور آج بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات کی تکوینی حاکمیت صرف اللہ کی ہے. لیکن توحید کا تقاضا یہ ہے کہ دُنیا میں تشریعی حاکمیت مطلقہ بھی صرف اللہ کے لئے ہو اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ (الانعام :۵۷، یوسف:۴۰،۶۷) اور اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ (الاعراف:۵۴) اور تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ (الملک:۱) اور لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (البقرۃ:۱۰۷) گویا ؎
سروری زیبا فقط اُس ذات بے ہمتا (۱) کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری
اس نظریہ کو نہایت شدومد سے محکم دلائل و براہین کے ساتھ قرآن مجید ہی نے پیش کیا ہے.
یہ موضوع اگرچہ تفصیل کا متقاضی ہے، لیکن یہاں چند اشارات ہی پر اکتفا کریں گے. غور کیجئے کہ فرانس کے انقلاب نے کیا کیا تھا. صرف ایک ہی چیز میں تبدیلی کی تھی کہ حاکمیت کسی خاندان یا فرد کی نہیں ہے بلکہ عوام کی ہے… گویا حاکمیت ایک خاندان یا فرد کے ہاتھ سے لے کر جمہور کو دے دی گئی. صرف یہی تبدیلی رونما ہوئی، اور تو کوئی نہیں. اس انقلاب کا لب لباب یہی ہے کہ:
’’حاکمیت (Sovereignty) کسی مخصوص فرد یا کسی شاہی خاندان کے ساتھ متعلق نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت حاکمیت کا تعلق عوام کے ساتھ ہے‘‘.
یہی نظریہ ہے جمہوریت کا. سارا جھگڑا اور سارا فساد اسی کا ہے کہ حاکمیت کس کی؟ اختیار کس کا؟ قانون بنانے اور دینے کا مجاز کون؟ یہ ہے اصل میں سارے بِس کی گانٹھ. (۲) اور یہ انقلاب کہ حاکمیت کو افراد اور خاندانوں سے نکال کر عوام میں لے آنا تو اس کے لئے کتنا خون دینا پڑا ہے. فرانس کا انقلاب بڑا ہی خونی انقلاب تھا. شیر کے منہ سے نوالہ نکالنا کوئی آسان کام ہے؟ جن لوگوں نے یورپ کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ وہاں (۱) لاثانی، بے مثل (۲) زہر کی پڑیا، فساد کی جڑ Divine Rights of the King کا سکہ جاری تھا. یعنی بادشاہوں کو تو خدائی اختیار حاصل ہیں، انہیں کون چیلنج کر سکتا ہے؟ (۱)
اب آپ سوچئے کہ انسانی سطح پر حاکمیت کی تبدیلی یعنی ایک فرد ایک خاندان کی حاکمیت کے بجائے عوام کی حاکمیت لانے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے، تو وہ کتنا بڑا انقلاب ہے جو برپا فرمایا جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے، جسے یوں تعبیر کیا علامہ اقبال نے کہ ؎
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں!
یہ عظیم ترین انقلابی نظریہ ہے: اللہ کی حاکمیت مطلقہ. اللہ کے سوا کوئی حاکم مطلق نہیں ہے. نہ کوئی فرد، نہ کوئی خاندان، نہ کوئی قوم، نہ پوری نوع انسانی. انسان کے لئے حاکمیت کی نفی مطلق ہے. انسان کے لئے تو خلافت ہے. اور وہ بھی عوامی خلافت… یعنی خلیفہ بھی آسمان سے مقرر نہیں ہوتا بلکہ عوام میں سے منتخب ہوتا ہے. اہل سنت اور اہل تشیع کے تصورِ خلافت و امامت میں اساسی و بنیادی فرق و اختلاف یہی ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک امامت (۱) دُنیا میں عام طور پر بادشاہوں کے لئے یہی تصور دیا گیا، جیسے ہندوستان میں سورج بنسی اور چندربنسی خاندان تھے اور مصر میں فرعون تھا.
راع یعنی سورج کو مصری بھی اپنا سب سے بڑا دیوتا مانتے تھے. تو ان خاندانوں کا تعلق نام نہاد دیوتاؤ ں اور دیویوں سے جوڑا گیا اور ان کے بارے میں یہ طے کر لیا گیا کہ ان کو چھیڑا نہیں جا سکتا، حکومت کرنا ان کا حق ہے اور ان کی بے چون و چرا اطاعت کرنا اور ان کو خراج ادا کرتے چلے جانا عوام کا فرض ہے. یہ فلسفے مذہبی سطح پر چلائے گئے. نام نہاد مذہب نے ہمیشہ اس تصور کو تحفظ دیا ہے، اس لئے کہ پنڈتوں، پوپ، پجاریوں، پروہتوں، پادریوں اور Priests کے مفادات اسی مشرکانہ تصور سے وابستہ رہے. دیوی دیوتاؤ ں کے نام سے جو بڑے بڑے مندر اور ہیکل تعمیر کئے جاتے رہے اور حضرت عیسیٰ او رمریم صدیقہ علیہما السلام کے نام پر جو بڑے بڑے کلیسا، گرجے اور چرچ بنائے جاتے رہے ان پر عوام الناس جو چڑھاوے چڑھاتے رہے ہیں وہ کہاں جاتے رہے! کیا ان بتوں اور مجسموں کے پیٹوں میں؟ نہیں، وہ سب ان لوگوں کے پیٹ میں جاتے رہے ہیں جن کے القاب ’’پ‘‘ سے شروع ہوتے ہیں اور جو میں نے ابھی آپ کو گنوائے ہیں. آپ چاہیں تو ایک پ (پیر) کا اور اضافہ کر لیں جو ہمارے یہاں رائج ہے جن کی اکثریت نے اسے پیشہ بنا رکھا ہے اور اس نے حاکمیت مطلقہ کے بجائے شفاعت باطلہ کا تصور جہلاء کے ذہنوں میں بٹھا کر اولیاء اللہ کے مقابر کو استھانوں کا درجہ دے رکھا ہے اور اس طرح آمدنی کا ذریعہ پیدا کر رکھا ہے. بقول شاعر ؏
’’مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج‘‘ صرف ایک خاندان کا حق ہے اور ان کے نزدیک امام مامور من اللہ ہوتا ہے، لہذا مطاعِ مطلق بھی ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء بھی. ہمارا تصور و عقیدہ اس کے بالکل برعکس ہے. ہمارے نزدیک مامور من اللہ ہونا اور معصومیت خاصہ نبوت و رسالت ہیں. جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم ہوئی اور رسالت کی تکمیل ہو گئی. لہذا معصومیت بھی ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم ہو گئی. کوئی خلیفہ یا امام مامور من اللہ نہیں ہے. کوئی معصوم نہیں ہے اور نہ تا قیام قیامت ہو سکتا ہے. ہمارے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کے لئے خلافت ہے، خلافت ِعامہ… یعنی عوام الناس اپنی رائے سے جس کو چاہیں خلیفہ چن لیں. گویا کہ وہ اپنے حقِ خلافت کو تفویض (Delegate) کر رہے ہیں ایک شخص کو کہ وہ ان کا سربراہ ہے.
خلافت راشدہ درحقیقت تتمہ اور ضمیمہ تھی دَور نبوت کی… وہ مشن جو حضور ﷺ کو دیا گیا تھا ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ (توبہ:۳۳،الفتح:۲۸،الصف:۹) اس کی توسیع اور عالمی سطح پر اس کی تکمیل کے لئے دراصل یہ خلافت کا نظام قائم کیا گیا تھا کہ ایک ملک میں اللہ کے دین کو بنفس نفیس نبی اکرم ﷺ نے غالب اور قائم فرما دیا اور پھر پورے کرۂ ارض پر اسے غالب کرنے کا کام اُمت کے حوالے فرما دیا… صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو یہ مشن دے کر حضور ﷺ دُنیا سے تشریف لے گئے. لہذا یہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ تھی. اسی لئے صدیق اکبرؓ پہلے خلیفۂ راشد نے اپنے لئے ’’خلیفۃُ رسولِ اللہ‘‘ کا لفظ اختیار کیا. لیکن آئندہ مستقل طور پر اسلامی خلافت کا سربراہ خلیفۃ المسلمین یا امیر المؤمنین کہلائے گا. یعنی اصل میں تو تمام مسلمان خلافت کے اہل اور حامل ہیں، لیکن وہ جب اپنی رائے سے کسی کو خلافت کی ذمہ داری تفویض کریں گے تو وہ مسلمانوں کا خلیفہ ہو گا. یہ ہے نظریۂ توحید کا سب سے پہلا انقلابی تصور جس کا تعلق سیاسی ڈھانچے سے ہے.