اسی نظریۂ توحید کا بدیہی نتیجہ، جسے اس دَور میں پوری طرح کھول کربیان کرنے اور واضح کرنے کی ضرورت ہے،انسان کی ملکیت مطلقہ کی نفی کامل ہے. جیسے کوئی حاکم مطلق نہیں ویسے ہی کوئی مالک مطلق نہیں. حاکم حقیقی بھی اللہ ہے اور مالک حقیقی بھی اللہ ہے… قرآن مجید میں جس طور پر مختلف اسالیب سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِ مطلقہ کا اثبات فرمایا گیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ملکیت مطلقہ کا بھی مختلف اسالیب سے اثبات کیا گیا ہے. لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اور لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ کے الفاظ اللہ کی اسی ملکیت مطلقہ کے اظہار کے لئے قرآن مجید میں متعدد بار آئے ہیں. یہاں ’’لِلّٰہِ‘‘ اور ’’ لَہٗ ‘‘ میں حرفِ جار ’لام‘ کے متعلق تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ لام تملیک بھی ہے اور لامِ استحقاق بھی… پھر سورۂ آل عمران میں وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اور سورۃ المنافقون میں وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فرما کر مسئلہ کو بالکل واضح کر دیا گیا کہ جس طرح حاکم حقیقی صرف اللہ ہے اسی طرح کائنات کی ہر شے کا مالک حقیقی بھی صرف اللہ ہے. شیخ سعدیؒ نے اس مفہوم کو بڑے دل نشین اسلوب سے ادا کیا ہے ؎
ایں امانت چند روزہ نزدِ ماست
درحقیقت مالک ہر شے خداست
(۱)
اسی مفہوم کو علامہ اقبال یوں ادا کرتے ہیں ؎
بندۂ مومن امیں، حق مالک است
غیر حق ہر شے کہ بینی ہالک است
(۲)
حاصل کلام یہ ہوا کہ جیسے حاکمیت کے باب میں حاکمیت کے بجائے خلافت ہے، ویسے ہی ملکیت کے ضمن میں ملکیت کے بجائے امانت ہے. جو کچھ انسان کے پاس ہے اس کے حصول پر بھی قدغنیں (۳) ہوں گی. ناجائز طریقہ سے حاصل کر لے گا تو ضبط کر لیا جائے گا اور تأدیب کا سزا وار ٹھہرے گا. لیکن انسان جائز طریقہ سے جو کچھ حاصل کرے گا تو وہ اس (۱) ترجمہ: جو کچھ ملا ہوا ہے یہ چند دن کے لئے امانت ہے. حقیقتاً تو ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے.
(۲) ترجمہ: بندہ مومن تو امین ہے مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ تو ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے.
(۳) پابندیاں کے پاس اللہ کی امانت ہے. اس میں تصرف بھی صرف جائز طریقہ سے کیا جا سکے گا، ناجائز طریقہ سے تصرف ہو گا تو تصرف کا اختیار بھی ساقط ہو جائے گا.… یہ بھی بہت بڑا انقلابی نظریہ ہے.ایک وہ تصور ہے کہ ذاتی ملکیت کا حق بڑا مقدس ہے. میری شے ہے، میں جس طرح چاہوں استعمال کروں، میرا اختیار مطلق ہے، میں جو چاہوں کروں. ملکیت کا مطلب تو یہی ہے کہ میری بکری ہے، میں جب چاہوں ذبح کر دوں، تم کون ہو پوچھنے والے؟ میرا پیسہ ہے، میں جس طرح چاہوں اسے Invest کروں، میں نے شراب خانہ کھولا ہے، میں نے کسی کو مجبور نہیں کیا، جو آ کر پینا چاہے پئے، نہ پینا چاہے نہ پئے میں نے کسی پر جبر نہیں کیا، میں بھی آزاد ہوں، وہ بھی آزاد ہے. میں نے قمار خانہ، قحبہ خانہ، نائٹ کلب اور انہی قبیل کے کاموں میں اپنا سرمایہ لگایا ہے، کوئی ان میں دلچسپی لے یا نہ لے، میں کسی کو مجبور نہیں کرتا. لیکن یہ تصور اسلام میں نہیں ہے. اسلام میں امانت کا تصور ہے. امانت کے مالک نے جس حد تک اور جن پابندیوں کے ساتھ تصرف کا حق دیا ہے، اس حد تک تصرف کر سکتے ہو. اس سے تجاوزکرو گے تو مجرم شمار ہو گے. غور کیجئے کہ معاشی سطح پر یہ کتنا عظیم انقلاب ہے. بقولِ علامہ اقبال ؎
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں