اسلامی انقلابی تنظیم کی اساس اور اس کا مزاج

انقلابی جدوجہد کے مراحل و لوازم میں سے دوسرا مرحلہ انقلابی جماعت کی تشکیل و تنظیم کا ہے. یعنی جو لوگ انقلابی دعوت کے اساسی نظریہ کو ذہناً تسلیم کر لیں اور اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے داعی کے گرد جمع ہو جائیں انہیں ایک جماعت کی صورت میں منظم کرنا. اس کے لئے قرآن مجید کی تین اصطلاحات ہیں. پہلی قرآنی اصطلاح ’’بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ‘‘ ہے یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار… جب تک یہ کیفیت نہ ہو تنظیم وجود میں نہیں آسکتی. اس کے لئے بنیاد کیا ہے؟ سمع وطاعت! سنو اور اطاعت کرو ’’وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا ‘‘ (Listen and Obey) . یہ دوسری قرآنی اصطلاح ہے. اب اس میں تیسرا عنصر شامل کریں تو وہ ہے ’’ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ‘‘ جو لوگ ہم سفر ہیں، ساتھی ہیں، ان کے لئے نہایت مہربان، نہایت نرم، نہایت ہمدرد ودَمساز، لیکن کفار جو مقابل ہیں ان کے لئے نہایت سخت(Uncompromising) . محسوس ہو جائے کہ ان کے اندر کسی قسم کی لچک کا امکان نہیں ؎

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ (۱)
حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن

تنظیمی اعتبار سے جب تک ایسی مضبوط جماعت موجود نہ ہو انقلاب کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا.
ایسی جماعت کے وجود میں آنے کی اساسات کے ضمن میں نبی اکرم  کی سیرتِ مبارکہ میں ہمیں دو چیزیں نظر آتی ہیں… اصل بنیاد تو یہ ہے کہ حضور  نے دعویٰ کیا کہ میں نبی ہوں، رسول ہوں، بالفاظ قرآنی 
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ’’اے نبی ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشیر اور نذیر بنا کر!‘‘ چنانچہ جس نے مان لیا اور جو ایمان لے آیا گویا وہ ہمہ تن، ہمہ وجود مطیع ہو گیا. یہ اتنی منطقی بات ہے کہ جب تسلیم کر لیا کہ حضور  اللہ کے رسول ہیں اور مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘ تو اس کے بعد کسی مسلمان کا کچھ کہنے اور حضور  کے فرمان اور رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے دینے کا حق باقی کب رہ گیا. اب وہ چون و چرا (۲نہیں کر سکتا. دنیا کے کسی اور قائد، کسی اور رہنما اور کسی اور لیڈر کی بات سے اختلاف ممکن ہے، لیکن رسول  کی کسی بات سے بھی اختلاف ممکن نہیں ہے.

اس لئے کہ یہاں تو یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ آپ  کے پاس علم کا وہ ذریعہ ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے. جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا تھا یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ قَدۡ جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ یَاۡتِکَ فَاتَّبِعۡنِیۡۤ اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ﴿۴۳﴾ (مریم:۴۳’’ابا جان! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا تھا، پس میری پیروی کیجئے، میں (۱) معرکہ ، جنگ (۲)حیلہ بہانہ آپ کو بتاؤ ں گا سیدھا راستہ کونسا ہے‘‘… بظاہر یہ اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ بیٹا باپ سے یہ کہے. لیکن دلیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو وحی الٰہی کے ذریعے سے علم حقائق حاصل ہو رہا ہے جو باپ کو حاصل نہیں ہے. باقی رہا تجرباتی علم، وہ والدکو زیادہ ہو تو ہو.

رسول اور امتی کے تعلق کی تفہیم کے لئے اُس مجلسِ مشاورت کی روداد بڑی تابناک مثال ہے جو حضور  نے غزوۂ بدر سے پہلے مہاجرین و انصاررضی اللہ عنہم اجمعین کی منعقد فرمائی تھی. اس موقع پر حضرت سعد بن عبادہ انصاری ؓ رئیس خزرج نے اس تعلق کے لب لباب کو چند جملوں میں بیان کر دیا تھا. انہوں نے عرض کیا تھا 
’’اِنَّا آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ‘‘ ’’بے شک ہم آپ  پر ایمان لاچکے اور ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے‘‘ یعنی ’’حضور  آپ ہم سے کیا پوچھتے ہیں! آپ  بھول جایئے کہ بیعتِ عَقَبہ ثانیہ میں کیا طے ہوا تھا اور کیا نہیں. ہم آپ  پر ایمان لاچکے، ہم آپ  کی تصدیق کر چکے، ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کر چکے، اب ہمارے پاس کون سا اختیار باقی رہ گیا. اللہ کی قسم، آپ  ہمیں حکم دیں گے تو ہم اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں گے. اگر آپ  حکم دیں گے تو ہم برک الغماد (۱تک جا پہنچیں گے چاہے اونٹنیاں دبلی اور لاغر ہو جائیں یا ختم ہو جائیں‘‘.

اس تنظیم کے متعلق یوں سمجھئے کہ دنیا میں اس سے زیادہ مضبوط تنظیم کا آپ تصور کر ہی نہیں سکتے. اس لئے کہ معاملہ ہے رسول اور اُمتی کا. لیکن چونکہ یہ کام آگے بھی ہونا تھا، اب تاقیام قیامت کسی نبی اور رسول کو نہیں آنا تھا… تو آئندہ یہ تنظیم کس بنیاد پر ہو گی؟ اس کے لئے نبی اکرم  نے امت کی رہنمائی کے لئے بیعت کی سنت جاری فرما دی. یعنی حضور  کے بعد اِعلاءِ کلمۃ اللہ، 
(۲اقامت ِ دین اور اظہار دین الحق علی الدین کُلّہِ کے لئے جو تنظیم بنے وہ بیعت سمع و طاعت کے اصول پر بنے.
البتہ انتظامی امور کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بڑے ادب و احترام کے ساتھ دریافت کر لیا کرتے تھے کہ آپ  نے یہ جو تدبیر فرمائی ہے تو یہ آپ  کا ذاتی اجتہاد ہے یا بذریعہ وحی اللہ کے حکم سے فرمائی ہے؟ اگر حضور  فرماتے کہ یہ فعل وحی کی بنیاد پر نہیں ہے 
(۱) یمن کے آخری کونے کا شہر (۲) اللہ کے کلمے کی بلندی بلکہ ذاتی اجتہاد پر مبنی ہے، تب تو وہ اپنی رائے دینے کی جرأت کرتے تھے کہ حضور  ! پھر اپنے تجربے اور فہم کی بنیاد پر ہم عرض کریں گے کہ فلاں معاملے کی تدبیر اس طرح کی جائے تو مناسب ہو گا… اس کی متعدد مثالیں سیرتِ مطہرہ میں موجود ہیں. مثلاً غزوۂ بدر کے لئے حضور  نے مسلمانوں کے کیمپ کے لئے جو مقام معین فرمایا تھا اس کے بارے میں صحابہ ؓ نے عرض کیا تھا کہ حضور! اگر یہ انتخاب وحی کی بنیاد پر ہے تو سرِ تسلیم خم ہے، لیکن اگر یہ اجتہاد کا معاملہ ہے تو ہم عرض کریں گے کہ جنگ کی حکمت ِ عملی (War Strategy) کے اعتبار سے یہ جگہ مناسب نہیں ہے بلکہ فلاں جگہ مناسب ہے. تو حضور نے وہاں کیمپ لگوا دیا … یہی معاملہ غزوۂ احزاب کے موقع پر ہوا تھا. اس موقع پر تین اطراف سے مدینہ منورہ کی چھوٹی سی بستی پر کفار نے یورش کی تھی. جنوب سے قریش آ گئے، شمال سے یہودی آ گئے اور مشرق سے بنو غطفان کے قبائل آ گئے. حضور  کو بڑا دُکھ تھا کہ میری وجہ سے آج مدینہ کی بستی گھیراؤ میں آ رہی ہے. اہل مدینہ نے مجھے اور میرے صحابہؓ کو اپنے یہاں پناہ دی اور میرا ساتھ دیا جس کی وجہ سے ان پر یہ قیامت ٹوٹ پڑنے والی ہے. تو انصار ؓ پر نرمی کے خیال سے حضور  نے یہ تجویز پیش فرمائی کہ اگر آپ لوگ چاہیں تو بنو غطفان کے ساتھ ہم یہ معاملہ کر لیں کہ مدینہ کی پیداوار کا کچھ حصہ ان کو بطور خراج دینے کی پیشکش کریں، اور اگر وہ واپس چلے جائیں تو پھر ہم ان دو دشمنوں سے نمٹ لیں گے. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ  نے انصارؓ کے حوصلہ کی پختگی (Morale) کا جائزہ لینے کے لئے یہ بات بطور تجویز پیش فرمائی ہو. واللہ اعلم! اس پر انصارؓ نے عرض کیا: 

حضور  ! اگر یہ تجویز وحی کی بنیاد پر ہے تو سرِ تسلیم خم ہے. لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ قبائل ہم سے کبھی جاہلیت میں بھی خراج نہ لے سکے، آج ہم اسلام میں آ کر ان کو خراج دیں! ایسا نہیں ہوسکتا… اس پر حضور  نے انہیں شاباش دی.

حقیقت یہ ہے کہ نبی کے ساتھ اُمتی کا تعلق یہ ہوتا ہے کہ جہاں حکم آ جائے اور ساتھ ساتھ یہ صراحت ہو کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو اس کے بعد سر تسلیم خم کرنے کے سوا چارہ نہیں. لیکن اگر کسی معاملہ میں مشورہ کی گنجائش ہو تو مشورہ دیا جائے. حضور  کو حکم ہوا 
وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ ’’اے نبی! آپ  ان سے مشورہ کرتے رہا کریں‘‘. فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ’’لیکن جب آپ فیصلہ کرلیں تو پھر اللہ پر توکل کریں‘‘.

 وہاں گنتی کی بنیاد پر کبھی فیصلے نہیں ہوئے. کئی بار ایسا ہوا ہے کہ حضور  نے اپنی ذاتی رائے کے مقابلے میں صحابہ کرام ؓ کی رائے قبول فرما لی. رسول اور اُمتی کا تعلق ہی ایسا ہے کہ اس سے زیادہ مضبوط اور منظم (Disciplined) جماعت کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے. سوچنے کا مقام ہے اگر یہ کام صرف حضور  کے دستِ مبارک سے ہونا ہوتا تو تنظیم کے لئے کسی دوسری بنیاد اور اساس کو واضح کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی. لیکن اگر یہ ایک جاری و ساری عمل ہے، اسے آگے بھی چلنا ہے، جیسے اس وقت ہمارے سامنے مسئلہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ ارادہ عطا فرما دے کہ ہمیں خالص اسی نہج پر انقلاب برپا کرنا ہے جس پر حضور  نے برپا فرمایا تھا، تو پھر سوال یہ ہے کہ حضور  کے بعد نبی تو کوئی نہیں، تو پھر کس بنیاد پر لوگ جڑ کر ایک تنظیم بنیں گے؟ وہ تعلق کس اساس پر قائم ہو گا؟ آیا وہ کوئی جمہوری تنظیم ہو گی، دستوری تنظیم ہو گی، گنتی کی اساس پر فیصلے ہوا کریں گے؟ کیا ہو گا؟ اس کے لئے حضور  نے یہ طریق کار اختیار فرما کر جسے ہم لفظ بیعت کے نام سے جانتے ہیں اپنے اسوۂ حسنہ سے ہمیشہ ہمیش کے لئے راہنمائی چھوڑی ہے. یعنی اللہ کا کوئی بندہ کھڑا ہو… ظاہر ہے وہ نبی اور رسول نہیں ہو گا… لیکن وہ اللہ کی توفیق سے کھڑا ہو اور پکارے کہ میں اسلامی انقلاب کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتا ہوں، کون ہے جو میرا ساتھ دے؟ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (سورہ الصف) ’’کون ہے میرا مددگار اللہ کے راستے میں؟‘‘ لوگ اسے ٹھونک بجا کر دیکھیں، جائزہ لیں، اس کی سیرت و کردار کو پرکھیں، اس کی پوری تاریخ کو دیکھیں. اپنی حد تک اطمینان کی کوشش کریں کہ یہ شخص بہروپیا تو نہیں، واقعتا کوئی کام کرنا چاہتا ہے، اور اس کی زندگی میں کوئی ایسی بات بھی نہیں ہے جو اس کام سے متضاد اور مُتَناقِض (۱ہو جس کا بیڑا اٹھا کر یہ کھڑا ہوا ہے، فی الجملہ اس کے فکر اور اس کے خلوص پر اعتماد کیا جا سکتا ہے. لہذا اس صورت میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیں… یہ ہے بیعت سمع وطاعت.

جس کے لئے (۱) خلاف جناب محمد رسول اللہ  نے تفصیلی ہدایات چھوڑی ہیں. حضور  نے کئی مواقع پر بیعت لی تھی. دو مواقع کا تو ابھی ذکر ہوا، بیعتِ عَقَبہ اولیٰ اور بیعتِ عَقَبہ ثانیہ… ایک بیعت وہ ہے جس کا تذکرہ ابدالآباد تک ہوتا رہے گا، جب تک کہ قرآن حکیم کی تلاوت ہوتی رہے گی. وہ ہے بیعت رضوان، جس کا ذکر قرآن حکیم میں بایں الفاظ ہوا لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ (الفتح:۱۸غور کیجئے کہ اس موقع پراگر حضور  جنگ کا فیصلہ فرماتے تو کیا ان چودہ سو اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کوئی ایک بھی پیچھے ہٹ سکتا تھا جو مدینہ منورہ سے چل کر حدیبیہ تک گئے تھے؟… پھر حضور  نے بیعت کیوں لی؟ صرف اس لئے کہ اصل میں یہ بعد والوں کے لئے سنت اور اُسوہ ہے جو نبی اکرم  نے چھوڑا ہے.

پس یہ بنیاد ہے تنظیم کی جو ہمیں سنت نبوی  سے ملتی ہے اور اس تنظیم میں ہر قسم کے نسلی اور قبائلی امتیازات کا نام و نشان مٹ جاتا ہے. اب یہ نہیں ہے کہ کوئی قرشی ہے تو اس کا مقام اونچا ہے اور اگر کوئی حبشی ہے تو اس کا مقام نیچا ہے. یہ تقسیم تو جاہلیت کی تقسیم ہے، اسلام کی تقسیم نہیں ہے. سہیل بن عَمرو وہ صاحب ہیں جو حدیبیہ میں قریش کے نمائندہ کی حیثیت سے صلح کی شرائط طے کرنے آئے تھے . قریش میں ان کا کتنا اونچا مقام ہو گا کہ وہ صلح کی شرائط کی گفت و شنید کے لئے قریش کی طرف سے بااختیار نمائندہ بن کر آئے تھے. وہ بڑے ذہین تھے. جب نبی اکرم نے صلح نامہ تحریر کرانا شروع کیا کہ ’’یہ معاہدہ ہے محمد رسول اللہ اور قریش کے مابین‘‘ تو انہوں نے فوراً اعتراض کر دیا کہ نہیں، یہاں ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ نہیں آئیں گے. اس لئے کہ اگر وہ حضور  کو ’’رسول اللہ‘‘ مان لیتے تو سارا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا. نیچے دستخط تو دونوں فریقوں کے ہونے تھے. سہیل بن عمروؓ نے کہا کہ یہ لکھا جائے گا کہ ’’یہ معاہدہ ہے محمد بن عبداللہ اور قریش کے مابین‘‘… حضور  مسکرائے کہ کوئی مانے نہ مانے میں اللہ کا رسول ہوں. لیکن آپ  نے اس اعتراض کو تسلیم فرما لیا. فتح مکہ کے بعد سہیل بن عمرو بھی ایمان لے آئے تھے.

حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت کا ایک واقعہ ہے کہ قریش کے یہ چوٹی کے فرد 
سہیل بن عمروؓ فاروق اعظمؓ کی مجلس میں حاضر ہوئے. آنجناب ؓ نے ان کو اپنے پاس بٹھا لیا.ان کے بعد چند اور اصحاب ؓ آ گئے جو ’وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ‘ میں سے تھے، یا اصحابِ بدر و اُحد میں سے تھے، یا اصحابِ بیعت رضوان یعنی اصحابِ شجرہ میں سے تھے تو آپؓ نے حضرت سہیل ؓ کو کچھ پیچھے ہٹ جانے کے لئے فرمایا اور ان حضرات ؓ کو اپنے ساتھ بٹھا لیا. پھر چند اور اصحاب آ گئے تو ان کو اور پیچھے ہٹایا اور ان حضرات کو قریب بٹھایا.

لوگ آتے رہے اور حضرت عمرؓ سہیلؓ کو پیچھے ہٹاتے رہے. ہوتے ہوتے سہیلؓ جوتیوں تک پہنچ گئے. تب ان کی قرشیت کی حمیت ذرا جاگی اور انہوں نے شکوہ کیا کہ کیا آپؓ کی مجلس میں ہمارا مقام یہ جوتیوں والا رہ گیا ہے؟ حضرت عمرؓ نے زبان سے کوئی جواب نہیں دیا، اشارہ کر دیا کہ سرحدوں پر کفار سے جنگیں ہو رہی ہیں… تم نے وہ تمام مواقع کھو دیئے جو اسلام میں آگے آنے کے مواقع تھے. تاہم اب بھی موقع ہے، وہاں سرحدوں پر جاؤ اور اسلام کے لئے قربانیاں دو، سرفروشیاں کرو، تب تو شاید تمھیں یہ مقام حاصل ہو جائے، لیکن نسلی اور قبائلی بنیاد پر جو مراتب تھے، وہ ختم ہو چکے. چنانچہ کسی جماعت میں اگر اس نسلی امتیاز کا خاتمہ نہ ہو تو وہ انقلابی جماعت نہیں ہے . یہی وجہ ہے کہ بلال حبشی ؓ اس مقام تک پہنچ گئے کہ عمر فاروق ؓ انہیں ہمیشہ ’’سیدنا بلالؓ ‘‘ (ہمارے آقا بلالؓ ) کہا کرتے تھے. عمرؓ !… اور وہ حضور  کے سوا کسی اور کو ’’سیدنا‘‘ کہہ دیں! ان کے مزاج اور ان کے مقام سے کون واقف نہیں. ان کی شخصیت کا ایک اپنا رنگ تھا. ہر شخص کی اپنی اُفتادِ طبع ہوتی ہے، چنانچہ حضرت عمرؓ کی اپنی طبیعت کا ایک خاص انداز تھا. لیکن آپؓ حضرت بلال ؓ کا نام ’’سیدنا‘‘ کہے بغیر نہیں لیتے تھے.

آپؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے لئے بھی کہا کرتے تھے کہ ’’اَبُوْبَکر سَیِّدُنَا وَاَعْتَقَ سَیَّدَنَا‘‘ یعنی ابوبکرؓ خود بھی ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار (بلال ؓ ) کو آزاد کیا تھا… اسلام میں آ کر اب یہ فرق و تفاوت رونما ہو چکا تھا کہ کہاں وہ حبشی، وہ آزاد کردہ غلام اور کہاں وہ بلند مرتبہ مقام جو انہیں حاصل ہو گیا. عرب کے معاشرے میں غلام آزاد ہو کر بھی نیم غلام تو رہتا ہی تھا، اسے ’’مولیٰ‘‘ کہا جاتا تھا اور اسے ایک آزاد شخص کی طرح معاشرے میں برابری کا مقام پھر بھی حاصل نہیں ہوتا تھا. اسی امتیاز کو ختم کرنے کے لئے جناب محمد رسول اللہ  نے یہ عملی سبق دیا تھا کہ جنگ مُوتہ (۱میں لشکر کی کمان زید بن حارثہ ؓ کے سپرد فرمائی جو ایک آزاد کردہ غلام تھے، اور ان کی کمان کے تحت جعفر طیارؓ (حضرت علیؓ کے بھائی)، خالد بن ولیدؓ ، عبداللہ بن رواحہ ؓ اور نہ معلوم کیسے کیسے جلیل القدر اصحابِ رسول ؓ تھے. پھر عین مرض وفات میں آپ  نے جو لشکر شام کی سرحدوں کی طرف بھیجنے کے لئے تیار فرمایا تھا، ا سکی کمان انہی زیدؓ کے بیٹے اسامہؓ کو سونپی تھی، جن کی عمر بھی اُس وقت تئیس چوبیس برس کی ہو گی اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جیسے اکابر صحابہ کرامؓ ان کے زیر کمان تھے. نبی اکرم نے یہ اس لئے کیا کہ پچھلے نسلی اور قبائلی افتخار کے بُت اگر ابھی ذہنوں میں بیٹھے ہوئے ہوں تو وہ سب پاش پاش ہو جائیں. یہ بالکل نیا نظام ہے جو قائم ہوا. یہ اس انقلابی پارٹی کے لئے نئی درجہ بندی (cadres) ہے.

پھر اس انقلابی جماعت میں سمع و طاعت کا معاملہ کس نوعیت کا تھا! اس کے لئے دو واقعات کافی ہیں. پورے مکی دور میں تمام صحابہ کرامؓ کے لئے حکم یہ رہا کہ چاہے مشرکین تمہیں کتنا ہی ماریں، کتنی ہی ایذائیں دیں، حتیٰ کہ تمہیں ہلاک کر دیں لیکن تم ہاتھ نہ اٹھاؤ . اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی… اور تاریخ میں اس کی شہادت موجود نہیں ہے کہ کسی نے حضور  کے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہو. یاد رہے کہ قرآن مجید میں ایسا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا. جو بدنصیب لوگ سنت کی اہمیت کے قائل نہیں ہیں، ان کے لئے یہ بات خاص طور پر غور کرنے کی ہے کہ مکی دور میں صحابہ کرامؓ کس حکم پر اس شدت اور سختی سے عمل پیرا تھے؟ قرآن حکیم میں تو کہیں جا کر ۵ھ یا ۶ ھ میں سورۃ النساء کی آیت۷۷ میں یہ الفاظ آئے ہیں 
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ قِیۡلَ لَہُمۡ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ ’’(اے نبی  ) کیا آپ  نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جن کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو…‘‘ لیکن پورے مکی قرآن میں یہ حکم موجود نہیں ہے. دراصل یہ حکم اللہ کا (۱) اُس وقت کے شام کا علاقہ نہیں تھا بلکہ محمد رسول اللہ  کا تھا. یا یوں کہئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم حضور  کو وحی خفی کے ذریعے سے دیا. وحی جلی میں یہ حکم بہرحال موجود نہیں ہے. اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں اس کی توثیق فرمائی ہے. اس آیت سے اس بات کی وضاحت ہو گئی ہے کہ اے مسلمانو! ایک دَور وہ تھا جب حکم یہ تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو، اُس وقت تو تم کہا کرتے تھے کہ ہمیں جنگ کی اجازت ہونی چاہئے. اور آج جبکہ جنگ کا حکم دے دیا گیا ہے تو تم گھبرا رہے ہو!… کسی جماعت کے اس درجہ منظم ہونے اور اپنے رہنما، قائد او رلیڈر کے حکم کی پابندی کی ایسی مثال پوری انسانی تاریخ میں آپ کو نہیں ملے گی.

دوسری مثال اس کے برعکس ہے. ایک موقع پر نظم کی عدم پابندی اور حکم عدولی ہوئی. وہاں ڈسپلن توڑا گیا. پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی جو سزا دی گئی اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس ڈسپلن کا کیا مقام ہے جو مطلوب ہے… غزوۂ اُحد میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ اہل ایمان کی مدد ہو گی اور واقعتا نصرتِ الٰہی آئی. چنانچہ پہلے ہی مقابلے کے اندر کفار کے قدم اُکھڑ گئے اور مسلمانوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کر دیا. لیکن اس موقع پر ان تیر اندازوں کی غلطی سے میدانِ جنگ کا نقشہ بدل گیا جو حضور  کی طرف سے جبل اُحد کے ایک درّے پر معین کئے گئے تھے اور جنھیں حضور  نے حکم دیا تھا کہ چاہے ہم سب کے سب شہید ہو جائیں، ہم میں سے کوئی نہ بچے اور تم دیکھو کہ پرندے ہمارے جسموں سے ہمارا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں تب بھی یہاں سے نہ ہٹنا… یہ پچاس تیر انداز تھے جن کے کمانڈر حضرت جبیر بن مطعمؓ تھے. درّے پر معیّن ان صحابہ کرامؓ کی اکثریت سے اس موقع پر یہ اِجتہادی غلطی ہوئی کہ انہوں نے سمجھا کہ حضور  کا حکم شکست کی صورت سے متعلق تھا، جبکہ اب تو برعکس صورت سامنے ہے، فتح ہو گئی ہے اور کفار میدانِ جنگ سے فرار ہو رہے ہیں، لہذا اب یہ جگہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اب ہمیں بھی نیچے میدان میں چلنا چاہئے… لیکن ان کے کمانڈر حضرت جبیرؓ ان کو روکتے رہے کہ حضور  کے حکم کو پیش نظر رکھو، ہمیں کسی حال میں بھی حضور  کے حکم کے بغیر یہاں سے نہیں ہٹنا.

لیکن پچاس میں سے پینتیس افراد نے حکم عدولی کی… حضور  کے حکم کی جو نافرمانی ہوئی اس کے متعلق تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی یہ تاویل کی گئی کہ حضور  نے تو شکست کی صورت میں اس درّے کو چھوڑنے سے منع فرمایا تھا، فتح کی حالت کے لئے تو نہیں فرمایا تھا… لیکن اس دستہ کا جو کمانڈر ہے فیصلے کا اختیار تو اس کے ہاتھ میں ہے. فوج میں دستے کے کمانڈر کی بات کو ماننا ڈسپلن کا عین تقاضا ہے بلکہ فرض ہے. دستہ کے سپاہیوں کو کسی بالائی حکم کی تاویل کرنے کا قطعی حق نہیں ہے، یہ حق صرف اس کمانڈر کا ہے. چنانچہ اس دستہ کے کمانڈر حضرت جبیرؓ تو اپنے دستہ کو روک رہے تھے. ان پینتیس افراد نے اپنے کمانڈر کے حکم کی خلاف ورزی کی اور درہ چھوڑ کر میدان میں جا اترے… خالد ؓ بن ولید جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے اور جن کا شمار جنگی حکمت عملی کے ماہرین میں ہوتا تھا، انہوں نے جب اس درّے کو خالی دیکھا تو گُھڑ سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ جبلِ اُحد کے عقب کا چکر لگا کر درّے کے دوسرے سرے سے حملہ کر دیا. پندرہ صحابہ ؓ جو وہاں رُک گئے تھے، جن میں حضرت جبیرؓ بھی شامل تھے، سب کے سب شہید ہو گئے. اب خالد بن ولید ؓ نے مسلمانوں پر پُشت کی طرف سے حملہ کر دیا.

فرار ہونے والے کُفّار نے بھی پلٹ کر ایک زور دار حملہ کیا. اس طرح ان پینتیس صحابہؓ کی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی وجہ سے فتح شکست سے بدل گئی اور پینتیس مسلمانوں کی حکم عدولی کی سزا ستر صحابہ کرامؓ کی شہادت کی صورت میں سامنے آئی. ان میں حمزۃؓ ، ’’اسداللہ واسد رسولہ‘‘ بھی تھے، جو ہزار افراد کے مقابلہ کا ایک فرد تھے، مُصْعَب بن عمیرؓ جیسی جان نثار شخصیت بھی تھی جن کی تبلیغ و دعوت کو اللہ نے یہ شرفِ قبولیت عطا فرمایا کہ یثربدارالہجرۃ اور مدینۃ النبی  بن گیا. پھر ان کے علاوہ دوسرے جان نثار انصار و مہاجرینؓ نے جام شہادت نوش کیا.کُل ستّر صحابہ کرامؓ شہید ہوئے. اور تو اور خود حضور  کے دندان مبارک شہید ہوئے. خَود کی کڑیاں رُخسارِ مبارک میں گڑ گئیں، آپ  پر غشی طاری ہوئی… مسلمانوں میں سراسیمگی پھیلی، حضور  کی شہادت کی خبر اُڑی، بہت سے صحابہ دل گرفتہ اور مایوس ہو کر بیٹھ رہے. اہل ایمان کے لشکر میں بھگدڑ بھی مچی… وہ تو جب حضور  کی طبیعت ذرا سنبھلی اور آپ  صحابہ کرام ؓ کو لے کر جبلِ اُحد پر چڑھ گئے اور لوگوں نے آپ  کو زندہ سلامت دیکھ لیا تو پراگندہ (۱جمعیت دامنِ کوہ میں جمع ہوئی… بہرحال شکست تو ہو گئی. اتنا بڑا چرکہ (۲لگ گیا.

بعد میں سورۂ آل عمران (آیت۱۵۲) میں اس صورت حال پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان الفاظ میں تبصرہ نازل ہوا 
وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ … اے مسلمانو! اللہ کا وعدہ جھوٹا ثابت نہیں ہوا. اللہ نے تو اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا جب تم اس کی اجازت سے اپنے دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے. لیکن جب تم ڈھیلے پڑے، تمھارا نظم ٹوٹا اور تم نے جب وہ چیز دیکھی جو تمہیں محبوب ہے اور اس کے بعد تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تب ہم نے یہ سزادی… یہاں ’’تُحِبُّونْ‘‘ سے بعض مفسرین نے ’’مالِ غنیمت‘‘ کے بجائے سورہ الصف کی آیت۱۳ کے الفاظ وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ سے استشہاد (۳کرتے ہوئے وہ فتح مراد لی ہے جو بالکل ابتدا ہی میں مسلمانوں کو حاصل ہوتی نظر آ رہی تھی… البتہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی انقلاب کے لئے کیسی تنظیم مطلوب ہے اور اس میں امیر کی اطاعت کی کیا اہمیت ہے، چاہے وہ پچاس افراد کے دستہ پر ہی کیوں نہ مقرر کیا گیا ہو!

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات (۱) منتشر (۲) زخم (۳) گواہی چاہنا.