بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم 

؎
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تُو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِبے زنہار تُو 

؏ 
بانشّہ درویشی درسازو دمادم زن!
_____ اقبالؔ _____


خطبۂ مسنونہ، تلاوتِ آیات قرآنی، احادیث نبوی اور ادعیہ ماثورہ کے بعد:

تو خاک میں مل اور آگ میں جل خشت بنے تب کام چلے
اِن خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ، تعمیر نہ کر!

انقلابی جماعت کی تشکیل و تنظیم کے بعد اگلا مرحلہ افراد کی تربیت کا ہے. کیونکہ کچے پکے لوگوں کو جمع کر کے اگر کوئی کام شروع کیا جائے، خاص طور پر انقلاب کا کام جہاں تصادم کا شدید ترین مرحلہ بھی آنا ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنی ناکامی کا سبب پہلے ہی سے خود فراہم کر لیا ہے. اس لئے کہ کچے پکے لوگوں کے ہاتھوں کامیابی کا کوئی امکان ہی نہیں. اس کام کے لئے بہت پختہ اور بہت مضبوط لوگ درکار ہیں… اسی کو علامہ اقبال نے یوں کہا ہے کہ ؎

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اِک انبار تُو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِبے زنہار (۱تُو 

یعنی پختہ ہونا لازم ہے. خام لوگوں سے کوئی کام نہیں ہو سکے گا. مثال کے طور پر اگر ریت کے بڑے بڑے گولے بنائے جائیں اور پھر انہیں کسی دروازے یا کھڑکی کے شیشے پر پوری قوت سے دے ماریں تو شیشے کا کچھ نہیں بگڑے گا. اس میں تو بال بھی نہیں پڑے گا، البتہ پھینکے ہوئے ریت کے گولے بکھر جائیں گے. لیکن اسی ریت کو بھٹی میں پکا کر پختہ اینٹ بنا لیں، پھر اس اینٹ کو شیشے پر دے ماریں تو نتیجہ برآمد ہو گا کہ شیشہ کھیل کھیل ہو جائے گا… علامہ نے بڑے ہی پیارے اور بڑے ہی مؤثر اندازمیں اسے فارسی میں خوب ادا کیا ہے. یوں سمجھئے کہ اس میں ۳+۳ کے مراحل کو ایک ایک مصرع میں سمو دیا ہے ؎

با نشّۂ درویشی در ساز و دما دم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن (۱)

(۱) ایسی تلوار جس سے پناہ نہ مل سکے 
پہلا مرحلہ ہے تیاری کا. اس کے لئے درویشی چاہئے. خاک میں ملنا پڑے گا، آگ میں جلنا ہو گا، آزمائشوں کی بھٹیوں سے گزرنا پڑے گا، نفس کے ساتھ مجاہدہ کرنا ہوگا. ان سب سے گزر کر پھر جب پختہ ہو جاؤ تو پھر اپنے آپ کو سلطنت ِ جم پر دے مارو. یعنی اسلام یہ بھی نہیں چاہتا کہ بس اپنی ذاتی اصلاح ہی کو مقصود و مطلوب بنا لو. یہ نہ ہو کہ خانقاہی مزاج ہی پختہ تر ہوتا چلا جائے اور میدان میں آنے کامرحلہ ہی نہ آئے بلکہ وہ نظروں سے بالکل اوجھل ہو جائے. باطل سے تصادم کے لئے تیاری بھی بہت ضروری ہے، بغیر تیاری کے میدان میں آ گئے تب بھی ناکامی ہے. لیکن اگر محض تیاری ہی ہوتی رہے اور باطل کے خلاف نبرد آزما ہونے کا خیال بھی دل میں نہ آئے تو وہ تیاری بے کار ہوجائے گی. (۲

اس تربیت کے ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ یہ محض انقلاب نہیں بلکہ اسلامی انقلاب کی تیاری ہے، اس لئے کارکنوں کی روحانی اور اخلاقی تربیت ضروری ہے. اگر انقلابی کارکن ہی اُن اَقدار کے پیکر نہ بن سکیں تو پیش نظر انقلاب میں کہاں سے وہ اَقدار آ جائیں گی اور کہاں سے وہ اَبعاد (Dimensions) آ جائیں گے جو اس نظام کے لازمی اجزاء میں سے ہیں جو قائم کرنا مطلوب ہے. لہذا بنیادی طور پر فرق واقع ہو جائے گا. ایک تربیت وہ ہے جو کسی دنیوی اور مادی انقلاب کے لئے کافی ہے اور ایک تربیت وہ ہے جو اسلامی انقلاب کے لئے درکار ہے. ان دونوںمیں زمین و آسمان کا فرق ہے.