تربیت و تزکیہ ہی کے مقصد کے لئے بنو اُمَیّہ کے دَور میں راہبانہ اور خانقاہی نظام بنا تھا جو بہت مؤثر رہا ہے او راس نے بڑی خدمات سر انجام دی ہیں. لیکن وہ نظام انقلابی کارکن پیدا نہیں کر سکتا. وہ نظام اس وقت بنا جب اسلامی حکومت قائم تھی. اگرچہ اس میں ایک خرابی پید اہو گئی تھی کہ اسلام کے نظامِ خلافت کا یہ اصول کہ جو بھی خلیفہ بنایا جائے وہ کسی خاندانی اور قبائلی تعلق کی بنیاد پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے باہمی مشورے سے بنایا جائے، ختم ہو گیا تھا. لیکن بہرحال پوری اسلامی مملکت میں اسلامی قانون رائج تھا، فقہاء تھے، مفتی حضرات تھے، قاضی تھے، عدالتیں تھیں اور اسلام کا پورا دیوانی اور فوجداری قانون رائج تھا. حدود اللہ جاری تھیں، تعزیرات کا اجراء ہو رہا تھا. قاضی حضرات بڑے بڑے باجبروت خلفاء بلکہ صحیح تر الفاظ میں ملوک و سلاطین کو مدعیٰ علیہ یا شاہد کے طور پر عدالت میں حاضر ہونے کے پروانے جاری کر دیتے تھے. حکومت کی سطح پر زکوٰۃ، عشر اور خراج تحصیل و تقسیم کا انتظام موجود تھا. معاشی ناہمواری اور فرق و تفاوت بہت کم تھا. اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کا اٹل اصول نہ صرف تسلیم کیا جاتا تھا بلکہ اس دائرے کے اندر اندر قانون سازی ہوتی تھی جو اللہ تعالیٰ نے ہیئت اجتماعیہ کی صوابدید (۱پر چھوڑ دیا تھا. ان حالات میں انقلابی طرز و نوعیت کی جدوجہد کی ضرورت ہی نہیں تھی. وہاں جو تربیت درکار تھی وہ یہ تھی کہ اچھے مسلمان وجود میں آئیں.

خدا ترس لوگ معاشرہ میں زیادہ سے زیادہ موجود رہیں. ایسے لوگ چشم سر سے نظر آئیں جن کی نگاہ میں دنیا کی حیثیت پرکاہ سے بھی فروتر ہو اور آخرت ہی ان کا مطلوب و مقصود ہو. لوگوں میں امانت ہو، دیانت ہو، شرافت ہو، ہمدردی ہو، دمسازی ہو، دلوں میں خدمت ِ خلق کا بے پناہ جذبہ ہو. یہی وجہ ہے کہ اُس زمانے میں مسلمانوں کا نظامِ تربیت خالص خانقاہی طرز کا بن گیا تھا… جس میں قلوب کا تزکیہ، اذکار و اَشغالِ مسنونہ کی تلقین، لوگوں کی نفسیات کے پیش نظر ان کو مختلف و ظائف کی تعلیم جیسی چیزیں شامل تھیں. اس لئے کہ پیش نظر انفرادی اصلاح تھی، کیونکہ مقبوضاتِ اسلامیہ میں اسلام کا اجتماعی قانون تو نافذ تھا، چنانچہ انقلاب کے لئے کارکنوں کی تربیت کی ضرورت ہی نہیں تھی. کارکنوں کو اس اعتبار سے میدان میں لانے کی حاجت ہی نہیں تھی. لہٰذا انقلابی تربیت اور انقلابی تصورات والا حصہ اس خانقاہی تربیت میں نہیں تھا.

خانقاہی تربیت کاہدف کچھ اور ہے، اس کا نتیجہ کچھ اور ہے، جبکہ انقلابی یا مجاہدانہ تربیت کا ہدف کچھ اور ہو گا اور اس کا نتیجہ کچھ اور ہو گا. جہاں انقلاب کی ضرورت نہیں وہاں 
(۱) منظوری وہ خانقاہی تربیت کافی ہے، لیکن جہاں پیش نظر انقلاب برپا کرنا اور غلبۂ دین کی جدوجہد کرنا ہو تو ظاہر بات ہے وہاں وہ خانقاہی تربیت کافی نہیں ہو گی.
اگر بالکل معروضی انداز میں 
(Objectively) دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ جناب محمد رسول اللہ  کا طریق تربیت خانقاہی نہیں، انقلابی تھا! علامہ اقبال نے اسی فرق کو اس قطعہ میں واضح کیا ہے ؎

یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مسلک مردانِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب مُلّا و جمادات و نباتات

اللہ اکبر کی تسبیح ایک مجاہد بھی کرتا ہے او رکسی خانقاہ میں بیٹھا ایک صوفی بھی کر رہا ہے. لیکن ان دونوں کی تسبیح میں زمین و آسمان کا فرق ہے.

اب دیکھئے اقبال نے الفاظ وہ استعمال کئے ہیں جو تصوف کے ہیں ’’خود آگاہ اور خدامست‘‘. یعنی وہ لوگ جو اپنے آپ کو بھی پہچان چکے ہیں اور محبت الٰہی میں مست بھی ہو چکے ہیں. لیکن محبت الٰہی میں مست ہونے کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ آپ مجذوب ہو کر بیٹھ جائیں، آپ کی قوتِ عمل معطل ہو جائے. اور ایک محبت خداوندی وہ ہے کہ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر آپ میدان میں آئیں اور اللہ کے دین کے غلبہ کے لئے اپنی گردن کٹوا دیں. اب یہ دو نتیجے علیحدہ علیحدہ ہیں. لہذا ان کو علامہ نے محولہ بالا قطعہ میں نمایاں کیا ہے.

اس قطعہ کے ذریعے واضح طور پر فرق و تفاوت سامنے آ جاتا ہے کہ ایک ہے مذہبی اور خانقاہی نظامِ تربیت اور دوسرا ہے انقلابی و مجاہدانہ نظام تربیت. ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے جو مجاہدانہ اور انقلابی تربیت ہے اس کا شاہکار ہے تربیت محمدی  . چنانچہ حضور  نے جن اصحاب کو تربیت دے کر تیار فرمایا وہ سربکف ہو کر میدان میں آگئے 
یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ (التوبہ:۱۱۱’’وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پھر قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں‘‘. ان کے لئے گویا زندگی کی آخری تمنا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں گردن کٹ جائے، جان چلی جائے اور شہادت کی موت حاصل ہو جائے. ان کے دلوں میں اس سے بڑی آرزو اور کوئی نہیں ہے. اس ضمن میں قرآن حکیم کے چند حوالے ملاحظہ ہوں… سورۃ الفتح کے آخر میں فرمایا: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸
’’وہی (اللہ ہے) جس نے بھیجا اپنے رسول (  ) کو الہدیٰ اور دین حق دے کر تاکہ غالب کرے اسے پوری جنس دین پر (پورے نظامِ حیات پر) اور اللہ کافی ہے بطور گواہ‘‘.

پورے نظام ہائے زندگی اور نظام ہائے اطاعت پر دین حق کا غلبہ ہی تو درحقیقت انقلابی عمل ہے. محمد  اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی میں جو کچھ کر سکتے تھے وہ کر گزرے تو اس کے لئے بطور گواہ اللہ کافی ہے. کسی اور کی گواہی کی آپ  کو ضرورت نہیں… اگلی آیت میں فرمایا کہ یہ کام کون کریں گے، یا یہ کام کس نے کیا؟ فرمایا مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ یہ درحقیقت محمد اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں، سب کی مشترکہ جدوجہد اور سعی و محنت ہے.
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کو کم کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے. اللہ تعالیٰ تو انہیں اپنی کتاب مبین میں اپنے رسول  کا مُعِین 
(۱قرار دے رہا ہے. غور کا مقام ہے اسلامی انقلاب اگر اکیلے رسول کے ذریعے سے برپا ہو سکتا ہو تا توکیوں نہ حضرت نوح ؑ انقلاب برپا کر دیتے! لیکن رسول کے ساتھ ایک ایسی جمعیت اور جماعت کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے آپ کو رسول کے مقصد کے لئے ہمہ تن وقف کر لے اور کامل تعاون و اعانت کا عملی مظاہرہ دکھا دے. جہاں رسول کا پسینہ بہے وہ اپنے خون کی ندیاں بہا دے. وہ رسول کے چشم و ابرو کے اشارے پر اپنی گردنیں کٹوا دینے کو اپنے لئے دنیا کی عظیم ترین نعمت و سعادت سمجھے. جب تک ایسے لوگوں کی جماعت وجمعیت موجود نہ (۱) اعانت کرنے والا، مددگار ہو انقلاب نہیں آ سکتا، اللہ کا دین غالب نہیں ہو سکتا. یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم  کی بعثت کی امتیازی خصوصیت والی آیت ِ مبارکہ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ سے متصلاً بعد فرمایا مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ... ____ یہ ہے ان دونوں آیات کا باہمی ربط و تعلق. یہ ہے نظم آیات جس میں معانی و مفاہیم اور حکم و بصائر کے کبھی ختم نہ ہونے والے خزانے موجود ہیں. یہ ہیں وہ جواہرات اور عجائبات جو قرآن و حدیث اور سیرتِ مطہرہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں معروضی طور پر تدبر اور غور و فکر کرنے والے طالب علم کے نصیب میں آتے ہیں.