اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ 

سورۃ الفتح کی آخری آیات میں آگے چل کر پہلے ان لوگوں کی سیرت کے دو اوصاف اور دو اَبعاد (Dimensions) بیان ہوئے جو اسلامی انقلاب کے لئے درکار ہیں:

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ 
’’محمد رسول اللہ(  ) اور جو لوگ آپ  کے ساتھ ہیں، کفار کے لئے نہایت سخت ہیں، آپس میں (مسلمانوں کے حق میں) نہایت نرم دل، شفیق، ہمدرد و دمساز ہیں‘‘.

اسی کو علامہ اقبال نے یوں تعبیر کیا ہے ؎ 

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم!
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن 

پس کسی انقلابی جماعت میں پہلا وصف ’’اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ ‘‘ ہے. ایک انقلابی شخص یہ سمجھتا ہے کہ رائج الوقت نظام باطل ہے… اب جو اس نظام سے وفاداری کا رشتہ رکھتا ہے، وہ چاہے باپ ہو، بیٹا ہو، بھائی ہو، یا کوئی اور رشتہ دار، ان کے ساتھ اس انقلابی کارکن کا کوئی تعلق باقی نہیں رہ سکتا. اگر نظام باطل کی فرماں برداری ووفاداری کسی کے اندر ہے تو اس کے ساتھ ایک انقلابی شخص کے تمام روابط، تمام تعلقات حتیٰ کہ رشتہ داریاں ختم ہو جائیں گی، تمام محبتیں منقطع ہو جائیں گی.

یہ کام تربیت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام نے عملاً کر کے دکھایا. چنانچہ میدانِ بدر میں عبدالرحمن بن ابی بکرؓ جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، کُفّار کے ساتھ تھے اور باپ ابوبکرؓ حضور کے جِلَو میں سرفروشی کے لئے موجودہ تھے. عبدالمطلب کے ایک بیٹے عباس جو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، کفار کے ساتھ اُدھر تھے اور ایک بیٹے 
حمزہ اَسَدُ اللہ واَسَدُ رسولہٖؓ اِدھر رسول اللہ کے ہم رکاب تھے. عُتْبَہ بن ربیعہ سپہ سالارِ لشکر کفار اُدھر ہے اور بیٹے ابوحذیفہ بن عتبہ ؓ اِدھر حضور  کے ساتھ ہیں… ماموں حضرت عمرؓ اِدھر اسلامی لشکر کے ساتھ تھے اور بھانجا اُدھر کفار کے ساتھ تھا. اس طرح نہ معلوم کتنے قریبی رشتہ دار معرکۂ بدر میں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آراء تھے. تمام رشتے کٹ گئے. اب یہاں قرابت داری کا کوئی سوال نہیں. عبدالرحمن بن ابوبکرؓ نے ایمان لانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ سے ایک موقع پر کہا ’’ابا جان! غزوۂ بدر میں آپ میری تلوار کی زد میں آگئے تھے، لیکن میں نے آپ کی رعایت کی‘‘. اس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓفرماتے ہیں ’’بیٹے ! تم نے یہ اس لئے کیا کہ تم اُس وقت باطل کے لئے لڑ رہے تھے. خدا کی قسم اگر کہیں تم میری تلوار کی زد میں آگئے ہوتے تو میں تمھیں کبھی نہ چھوڑتا، اس لئے کہ میری جنگ حق کے لئے تھی‘‘.

جنگ یرموک کا ایک بڑا دل گداز واقعہ ہے جو 
’’رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ‘‘ کی بڑی نمایاں عکاسی کرتا ہے… ایک زخمی کی آواز آتی ہے العَطش العَطش. (۱ایک مجاہد پانی لے کر اپنے زخمی بھائی کی طرف لپکتے ہیں کہ اچانک دوسری طرف سے ایک اور زخمی مجاہد کی آواز (۱) پیاس سنائی دیتی ہے. العطش العطش. وہ زخمی کہتے ہیں کہ پہلے میرے اس بھائی کی پیاس بجھاؤ . پانی لانے والے مجاہد اس کے پاس پہنچتے ہیں کہ تیسری طرف سے آواز آ گئی العطش العطش. وہ کہتے ہیں کہ پانی پہلے اس بھائی کے پاس لے جاؤ . وہ اُدھر لپکتے ہیں. پانی وہاں پہنچا نہیں ہے کہ زخمی کی رُوح پرواز کر گئی. وہ پلٹ کر دوسرے زخمی تک پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں وہ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ چکا. پہلے زخمی کے پاس آئے تو وہ بھی اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کر چکا تھا. تینوں بغیر پانی پئے چلے گئے، لیکن سورۃ الحشر کی آیت ۹ میں مومنین صادقین کے لئے جو الفاظِ مبارکہ آئے ہیں وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ’’خواہ اپنے اوپر کتنی ہی تنگی ہو اہل ایمان اپنے دوسرے بھائیوں کو اپنے سے مقدم رکھنے والے ہوتے ہیں. یہ شہداء کرام اس کی عملی تصویر پیش کر گئے. پھر حضور  نے ہجرت کے بعد مہاجرین و انصار ؓ کے درمیان جو مؤاخات قائم فرمائی، تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے.

پس ان کی شخصیت کا ایک وصف تو یہ ہے کہ محبت کے، دوستیوں کے، قرابت داریوں کے پیمانے بالکل بدل گئے ہوں… اگر یہ نہیں ہوگا تو یہ جماعت انقلابی جماعت نہیں ہے. اِدھر بھی محبتیں ہیں، ادھر بھی تعلقات ہیں. دل یہ بھی چاہتا ہے کہ اسلام کا غلبہ ہو جائے لیکن جو لوگ نظامِ باطل کی گاڑی کھینچ رہے ہیں ان سے بھی گاڑھی چھن رہی ہے اور دلی دوستیاں بھی نبھائی جا رہی ہیں، تو ان طریقوں سے انقلاب نہیں آتا… تمام دلی محبتیں، تمام ہمدردیاں ان لوگوں کے لئے سمٹ آئیں جو راہِ حق میں ان کے ہم سفر اور ساتھی ہیں. یہ ہے ہمارے دین اور ایمان کا تقاضا اور یہ ہے اسلامی انقلاب کے کارکنوں میں مطلوب و مقصود پہلا وصف!

ان 
’’رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ‘‘ کا اللہ کی نگاہ میں کیا مرتبہ، کیا مقام اور کیا وقعت ہے اسے اس حدیث ِ قدسی سے سمجھئے. رسول اللہ  کا ارشاد ہے کہ میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکار ہو گی اَیْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ بِجَلاَلِی اَلْیَوْمَ اُظِلُّھُمْ تَحْتَ ظِلِّی یَوْمَ لاَ ظِلَّ اِلاَّ ظِلِّی (۱’’کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے؟ آج کے دن میں ان کو اپنے عرش کے سایہ میں پناہ دوں گا کہ اِس دن میرے عرش کے سائے کے سوا کہیں اور کوئی سایہ نہیں‘‘… اس کی تائید اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَـکْمَلَ الْاِیْمَانَ (۲رسول اللہ  نے فرمایا ’’جس نے کسی سے اللہ کے لئے محبت کی اور کسی سے اللہ ہی کے لئے علیحدگی اختیار کی اور کسی کو اللہ کی خوشنودی کے لئے دیا جو کچھ دیا اور اللہ ہی کی رضا کے لئے روکا جو کچھ روکا تو یقینا اس شخص نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی‘‘.