اس ضمن میں ایک کامل نقشہ کے اعتبار سے سورۃ المائدہ کی آیات ۵۴تا ۵۶نہایت جامعیت کی حامل ہیں جن میں سے آیت نمبر۵۴ اہم ترین ہے. فرمایا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ ...’’اے اہل ایمان! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر گیا…‘‘ پھر جانے میں ہٹ جانے کا مفہوم بھی شامل ہے. اس سے ایک تو ظاہری اِرتداد (۱مراد ہے. یعنی کوئی اسلام ہی کو چھوڑ دے، کافر ہو جائے، کسی کذاب مدعی نبوت پر ایمان لے آئے… جیسے لوگ مسیلمہ کذاب پر ایمان لے آئے. ہمارے دور میں مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان لے آئے. ایک تو یہ قانونی اور ظاہری ارتداد ہے، لیکن ایک باطنی اور حقیقی ارتداد ہوتا ہے، یعنی منافقت… اندر سے کافر لیکن ظاہری طور پر اور قانونی اعتبار سے مسلمان. رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کی نماز جنازہ حضور  نے پڑھائی.

بظاہر وہ مسلمان تھا لیکن بباطن مرتد و کافر. اسی طریقے سے جو شخص بھی اللہ کے دین کے غلبہ کے لئے میدان میں آتا ہے اور پھر اپنی جان کی محبت کی وجہ سے، رشتہ داروں اورمال و اسبابِ دنیا کی محبت کی وجہ سے پیچھے ہٹتا ہے… تو یہ بھی ارتداد ہے، اگرچہ یہ قانونی ارتداد نہیں ہے. جیسے منافق قانونی طو رپر مرتد نہیں ہوتا، حقیقت کے اعتبار سے مرتد ہوتا ہے، اسی طرح وہ شخص ہے جو اقامت دین اور اظہار دین الحق علی الدین کلہ کی فرضیت کو سمجھ کر بھی دنیوی مفادات و تعلقات کی وجہ سے اس فریضہ کی ادائیگی سے جان چرا رہا ہے. اپنی جان پیاری ہے، یا مال پیارا ہے، یا دنیا پیاری ہے، لہذا پیچھے ہٹ رہا ہے تو یہ بھی درحقیقت ارتداد ہے، اگرچہ اس پر قانونی ارتداد کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا.

انہی لوگوں کو یہاں للکارا جا رہا ہے ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘‘… یعنی ایمان کے مدعی ہو. جو کوئی بھی تم میں سے ارتداد اور پسپائی اختیار کرے گاوہ سن رکھے 
فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ اللہ تعالیٰ انہیں دفع کرے گا، مسترد کر دے گا اور کسی دوسری قوم کو لے آئے گا… اور اس قوم کے ہاتھ میں اپنے دین کا جھنڈا تھما دے گا. وہ قوم اللہ کے دین کے قیام و نفاذ کے لئے مجاہدہ کرے گی، جس میں یہ اور یہ اوصاف ہوں گے. اب اسی آیت میں آگے چار اوصاف وارد ہوئے ہیں.

پہلا وصف 
یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ’’اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس (تعالیٰ) (۱) مرتد ہو جانا، اسلام چھوڑ دین ا سے محبت کریں گے‘‘. تو یہ ان کا اور اللہ کا تعلق ہے. اسی کا ایک مظہر ہے قیام اللیل… دوسرا وصف ہے اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ’’اہل ایمان کے حق میں بہت نرم، کافروں کے حق میں بہت سخت‘‘. یہ دونوں چیزیں تو وہی ہیں جو سورۃ الفتح میں بایں الفاظ آئی ہیںاَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ البتہ یہاں ترتیب بدلی ہوئی ہے. یہاں تیسرا وصف آ رہا ہے یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کے الفاظ میں، یعنی وہ اپنی پوری قوتیں، ہمہ تن، ہمہ وجوہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے لگا دیں گے اور چوتھا وصف لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ کے الفاظ میں بیان ہو رہا ہے، یعنی اس کام میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ بددل اور خوف زدہ ہوں گے اور نہ ہی کوئی تاثر لیں گے.