(۱) انقلابی نظریات کا استحضار اور انقلابی جذبہ کی آبیاری بذریعہ تلاوتِ قرآن

اس مجاہدانہ تربیت کے لئے سب سے پہلی لازم چیز یہ ہے کہ جو شخص بھی اس میدان میں آئے اس کا اپنے اِس انقلابی نظریہ کے ساتھ شعوری تعلق پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے. اگر کہیں اپنے انقلابی نظریہ کے ساتھ ذہنی تعلق کمزور ہو جائے گا تو وہ شخص مضمحل ہو جائے گا اور پھر وہ انقلابی کام نہیں کر سکے گا. یہ ہے وہ مقصد جس کے حصول کے لئے قرآن مجید اور احادیث ِ شریفہ میں سب سے زیادہ زور قرآنِ حکیم کی تلاوت پر دیا گیا ہے. نہایت نامساعد ماحول اور شدید ترین مخالفت کے دنوں میں نبی اکرم  کو یہی حکم دیا جا رہا ہے اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ (العنکبوت:۴۵)’’(اے محمد  )تلاوت کرتے رہا کرو اُس کتاب کی جو اللہ نے آپ  پر نازل کی ہے‘‘… غور کیجئے کہ یہ حکم صرف حضور  کو نہیں ہے بلکہ آپ  کی وساطت سے تمام اہل ایمان کو دیا جا رہا ہے کہ اگر اس انقلاب کے لئے تمہیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہے تو تمھارا شعوری، ذہنی و قلبی تعلق اس نظریہ کے ساتھ مضبوط ہونا چاہئے. اگر وہ کمزور پڑ جائے گا تو اس جدوجہد کے لئے جو جذبہ درکار ہے وہ بھی مضمحل ہو جائے گا… آگے فرمایا وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ ’’اور نماز قائم رکھو، بلاشبہ نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکنے والی چیز ہے‘‘.

یہاں دو چیزیں جمع کر لیں. یعنی قرآن اور نماز. اس لئے کہ نماز کا جزوِ اعظم بھی قرآن ہے. قرآن کا لب لباب سورۂ فاتحہ ہے، اس کی تلاوت نماز کی ہر رکعت میں لازمی ہے. اس کے ذریعے سے توحید کے ساتھ ہمارے ذہنی رشتہ کی استواری اور ہمارے عہد کی تجدید ہوتی ہے. چنانچہ جب ہم پڑھتے ہیں 
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ تو ہم توحید نظری یا توحید فی العقیدہ کا اعادہ کرتے ہیں اور جب ہم کہتے ہیں اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ تو ہم توحیدعملی یعنی اللہ کی عبادت و استعانت کا اقرار کرتے ہیں…اسی طرح سورۂ کہف اُس زمانے میں نازل ہوئی جبکہ مکہ میں قریش کی طرف سے حضور  کے قتل کا فیصلہ کیا جا چکا تھا. یہ مکی دور کا آخری حصہ ہے. اس میں حضور  کو کیا حکم دیا جارہا ہے وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا ﴿۲۷﴾ ’’(اے نبی  ) تلاوت کیا کرو اس کتاب کی جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف وحی کی گئی ہے. اس کی باتوں کو بدلنے والا کوئی نہیں اور تم اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے‘‘. یاد رہے کہ نبی اکرم  کے ساتھ تمام اہل ایمان بھی اس حکم کے مخاطب ہیں کہ اِس کتاب کی تلاوت کرو اور اس کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بناؤ. اِس کتاب کے ساتھ جس کا تعلق جتنا مضبوط ہو گا اتنا ہی انقلابی نظریہ کے ساتھ اس کا شعوری اور قلبی تعلق مضبوط ہوتا چلا جائے گا.

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ دوسرے انقلابات کے نظریے انسانی ذہنوں کی پیداوار ہیں جبکہ اسلامی انقلاب کا نظریہ وحی کے ذریعے محمد رسول اللہ  کو عطا فرمایا گیا ہے. لہذا زیادہ سے زیادہ قرآن سے تعلق، زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت، نماز میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھنا ضروری ٹھہرایا گیا. خصوصاً تہجد کے وقت اس کا التزام ہو اور 
اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا ﴿۷۸﴾ کے مصداق نمازِ فجر میں قرآن مجید کی طویل قرا ء ت ہو. اسی لئے اس کو ’’قرآن الفجر‘‘ کا نام دیا گیا. باقی نمازوں میں اتنی طویل قراء ت نہیں ہوتی، لیکن فجر کی نماز میں طویل قراء ت مطلوب ہے. فرمایا گیا کہ جان لو قرآن پڑھنا فجر کا مشہود ہے. یعنی اس کی گواہی دی جاتی ہے. اس موقع پر فرشتے سب سے زیادہ تعداد میں موجود ہوتے ہیں. اس لئے کہ رات کے فرشتے بھی، جن کی ڈیوٹی ختم ہو رہی ہوتی ہے اور دن کے فرشتے بھی، جو آ کر چارج لیتے ہیں، فجر کی نماز کے وقت دونوں جمع ہوتے ہیں.

درحقیقت تربیت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے نظام کی سب سے اہم اور اوّلین شق قرآن کو زیادہ سے زیادہ ٹھونک ٹھونک کر اپنے ذہن و قلب میں اتارنا ہے. ذہن کی گتھیوں کو سلجھانے، آئینہ قلب کو صیقل کرنے، ایک بندۂ مومن کے باطن کے نور کو اُجاگر کرنے اوراس میں ایک تازہ ولولہ اورجوشِ عمل پیدا کرنے کے لئے قرآن حکیم سے زیادہ مؤثر شے اور کوئی نہیں ہے. یہ کتاب مبین ہے، جو تَبۡصِرَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ ﴿۸﴾ بن کر نازل ہوئی ہے. یعنی ’’سیدھی راہ دکھانے والی اور یاد دہانی ہر اُس بندے کے لئے جو اللہ کی طرف رجوع کرے‘‘. اسی بات کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہ ؎

چوں بجا در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود

یعنی یہ قرآن اگر کسی کے ذہن میں اتر جائے گااور اس کے دل میں رچ بس جائے گا تو اس کے باطن میں ایک انقلاب اور اس کی شخصیت بدل جائے گی. اور جب اندر انقلاب آئے گا تو یہ بالآخر ایک عالمی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے. پھر علامہ نے یہ بھی کہا کہ اپنے نفس کے تزکیہ کے لئے بھی اس قرآن سے زیادہ مؤثر شے اور کوئی نہیں ؎

کشتنِ ابلیس کارے مشکل است
زانکہ اُو گم اندر اَعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی!
کشتہ شمشیر قرانش کنی!!

یعنی ابلیس کو قتل کر دینا آسان کام نہیں ہے. اس لئے کہ وہ انسان کے دل پر جا کر گھات لگاتا ہے. جیسا کہ حضور  نے فرمایا 
اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ (۱’’یقینا شیطان انسان کے جسم میں خون کی مانند دوڑتا ہے‘‘. پس جو زہر پورے جسم میں سرایت کر گیا ہو، اس کے لئے تریاق بھی وہ درکار ہے جو پورے وجود میں سرایت کر جائے اور وہ تریاق صرف قرآن ہے. اس کو اپنے باطن میں اتارو. اس کو اتارنے کا عمل یہ ہے کہ اسے بار بار پڑھو،اسے hammer کرو، اسے ٹھونک ٹھونک کر اپنے اندر اتارو. یہ نہیں کہ ایک بار پڑھا اور سمجھ لیا، بلکہ اس کو پڑھتے رہو. اِس طریقہ سے یہ قرآن رفتہ رفتہ انسان کے وجود میں سرایت کرتا ہے.

تلاوتِ قرآن کے انقلابی نظریہ اور تربیت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ منطقی ربط و تعلق سے واضح ہوا کہ انقلابی کارکن کے لئے اہم ترین بات یہ ہے کہ اس کا ذہنی و قلبی تعلق اپنے انقلابی نظریہ کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے. یہ تعلق کمزور رہے گا تو انقلاب کے لئے قربانی کا مطلوبہ جذبہ بھی مضمحل رہے گا. اور قرآن چونکہ انقلابِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کا نظریہ ہے، لہذا تربیت ِ محمدی  کی پہلی شق یہی ہے کہ اِس قرآن کو مسلسل اور پیہم محنت کر کے انسانوں کے اندر اتارا جائے. 
(۱) صحیح بخاری کتاب بدأ الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ عن ام المومنین صفیہ بنت حُیَی