اسلامی انقلاب تربیت کا دوسرا عنصر نفس کی مخالفت ہے. یہ نفس جسے ہم ID یا LIBIDO بھی کہہ سکتے ہیں، جس کے لئے قرآن کی اصطلاح ’’نفس امارہ‘‘ ہے، یہی راستہ کی رکاوٹ بنتا ہے. دنیا کی محبت، مال کی محبت اور دیگر خواہشاتِ نفس آدمی کا راستہ روکتی ہیں، بقول جگر ؎

تپتی راہیں مجھ کو پکاریں
دامن پکڑے چھاؤں گھنیری

انسان کو عافیت اور عیش و آرام درکار ہے، وہ دولت چاہتا ہے، شہرت چاہتا ہے. اور یہ حُبِّ مال، حُبِّ جاہ، حُبِّ دنیا، علائق دنیوی اور سازوسامان دنیا کی محبت ہی تو بندۂ مومن کے راستے کی اصل رکاوٹ ہے. ان کو جمع کرلیں تو یہ ہے نفس… اس نفس کی مخالفت دوسری شق ہے تربیتِ محمدی  کی… اس کے لئے ہمارے دین میں عبادات کا نظام رکھا گیا ہے، جنھیں اب ہم نے رسوم(Rituals) بنالیا ہے. بالفاظ علامہ اقبال ؎

رہ گئی رسم اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی ؒ نہ رہی

اب وہ صرف مراسم عبودیت بن کر رہ گئے. یہ تو درحقیقت ہمارے انحطاط کا نتیجہ ہے. اِس بات کی ضرورت ہے کہ سمجھا جائے کہ تربیت ِ محمدی  میں عبادات کی اصل غایت اور حقیقی مقام کیا ہے! نماز کی ایک غایت ابھی بیان ہو چکی وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ سورۂ طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ﴿۱۴﴾ ’’نماز قائم کرو میری یاد کے لئے‘‘. انسان اپنی دُنیوی مصروفیات کے دوران دن میں پانچ مرتبہ نکلے تاکہ وقفہ وقفہ سے اسے یاد دہانی حاصل ہو کہ وہ کسی کا بندہ اور غلام ہے، وہ مختار کل نہیں ہے، اسے اپنے روز مرہ کے معمولات بھی اسی اللہ کے احکام کے مطابق انجام دینے ہیں جس کے ذکر یعنی یاددہانی کے لئے وہ دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کرتا ہے. روزہ رکھنے کی بھی ایک غایت ہے تاکہ نفس کے اندر جو بھوک کا تقاضا ہے، زبان جو چٹخارے مانگتی ہے، شہوت کا جو تقاضا ہے، ان کا روزہ کے ذریعہ سے مقابلہ کرو. حضور  نے فرمایا یہ ڈھال ہے اَلصَّوْمُ جُنَّـۃٌ نفس کے حملوں سے روکنے والی چیز تمہارے پاس روزہ کی ڈھال ہے، جو اللہ نے تمہارے لئے فرض عبادت کے طور پر رکھی ہے. سال میں ایک مہینہ یعنی رمضان میں تو لازماً روزہ رکھو، اور اسے تمام مسلمان رکھیں، ایک اجتماعی ماحول بن جائے. لیکن صرف اس پر اکتفا نہ کرو، بلکہ نفلی روزے بھی رکھو، ہر مہینہ میں تین دن رکھنے کا اہتمام کرو، اور اس روزے کے ذریعہ سے اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرو. تربیت ِ محمدی  کی یہ دوسری شق ہے. نماز اور روزہ دنیا کےMode of Worship کے عمومی تصور سے بالکل علیحدہ ہیں. یہ یقینا بندگی اور اللہ کے سامنے عاجزی و تذلل کا ایک اظہار بھی ہے، لیکن یہ چیزیں تربیت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے وہ بنیادی امور ہیں جن کے ذریعہ سے تربیت دی جانی مقصود ہے. انہی کے ذریعے سے انسان کی قوت ِ ارادی کو تقویت حاصل ہو گی اور اس میں صلاحیت پیدا ہو گی کہ وہ نفس کے زور آور تقاضوں کا مقابلہ کر سکے.

اسی طرح زکوٰۃ کی فرض عبادت ہے. اقامت ِ صلوٰۃ کے ساتھ ہی ایتاءِ زکوٰۃ کا حکم ہے. یعنی زکوٰۃ ادا کرو، اللہ کی راہ میں خرچ کرو. انسان کے دل میں سب سے بڑی جو نجاست پیوست ہو جاتی ہے وہ مال کی محبت ہے. یہ گویا بریک ہے. جب تک گاڑی کا Brake نہیں کھلے گا آپ کتنا ہی (accelerator pedal) دبائیں انجن پھڑ پھڑا کر بند ہو جائے گا. مال کی محبت کا بریک لگا ہوا ہے تو جس صحیح رخ پر ایک مسلمان اور ایک مجاہد کا کردار پروان چڑھنا چاہئے، وہ کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا. لہذا اسے دل سے کھرچ کھرچ کر نکالنا ہو گا. اس کے لئے زکوٰۃ جیسے صدقاتِ واجبہ ہیں، پھر صدقاتِ نافلہ بھی ہیں. 

اپنے مال کو اللہ کی راہ میں ان صورتوں میں خرچ کرو. واضح رہے کہ لفظ زکوٰۃ تزکیہ سے بنا ہے جس کے معنی ہیں پاک کرنا، صاف کر دینا. گویا بریک کھول دینا، رکاوٹ کو دور کردینا. تزکیہ کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ایک مالی جب اپنے باغ میں دیکھتا ہے کہ اس نے جو پھل یا پھول والے پودے لگائے ہیں، ان کے ساتھ کچھ خود روگھاس اور جھاڑ جھنکاڑ بھی اگ آیا ہے اور اب یہ جھاڑ اور خود روگھاس بھی زمین سے غذا لے رہی ہے. اگر یہ نہ ہوں تو وہ پوری غذا ان پودوں کو ملے. ہوا میں جو قوتِ نمو ہے یہ خود رو چیزیں اس کو بھی جذب کر رہی ہیں. یہ نہ ہوں تو یہ پوری قوت ان پودوں کو ملے گی جن کو وہ چاہتا ہے کہ پروان چڑھیں… چنانچہ وہ مالی کھرپا ہاتھ میں لیتا ہے اور ان تمام خود رو چیزوں کو ختم کر دیتا ہے. اس عمل کا نام عربی میں تزکیہ ہے. انسان کی شخصیت میں جو اوصاف پروان چڑھنے چاہئیں، ان کی نشوونما اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مال کی محبت اور دنیاکی محبت ہے. یہ نجاست ہے جو یہ دل سے نکلے گی تو جو صلاحیتیں بالقوہ انسان کے باطن میں موجود ہیں وہ پروان چڑھیں گی. تو یہ ہے حقیقت میں تزکیہ کا عمل اور زکوٰۃ کا لفظ تزکیہ سے ماخوذ ہے. زکوٰۃ کا اصل مقصد قرآن کے ان الفاظ سے واضح ہے الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾ ’’وہ جو اپنا مال دیتا ہے حصولِ تزکیہ کے لئے‘‘. سورۃ التوبہ میں نبی اکرم  سے فرمایا جاتا ہے خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا ’’(اے نبی  !) ان مسلمانوں کے مالوں میں سے صدقات (زکوٰۃ) لیجئے تاکہ اس طرح آپ ان کو پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں‘‘.

نفس کی مخالفت کا جو تیسرا پروگرام اقدمیت و اوّلیت رکھتا ہے اور جو تربیت ِ محمدی  کا اہم ترین نکتہ ہے، وہ ہے رات کو جاگنا. نیند بھی انسان کے نفس کا بہت بڑا تقاضا ہے. جہاں پیٹ کا بھرنا نفس کا تقاضا ہے، زبان کا چٹخارانفس کا تقاضا ہے، شہوت کا جذبہ نفس کا تقاضا ہے، وہاں نیند، آرام، استراحت بھی نفس کا ایک زور دار تقاضا ہے…لہذا نفس کی مخالفت میں سب سے زیادہ انسان کی قوتِ ارادی کو مضبوط کرنے والی شے یہی ہے. سورۃ المزمل میں فرمایا گیا اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا ؕ﴿۶﴾ یعنی نفس کو کچلنے، نفس کی قوت کو توڑنے اور قابو میں رکھنے کے لئے سب سے موثر شے رات کا جاگنا ہے.

اگرچہ نزولِ وحی سے قبل بھی نبی اکرم  انسان کامل تھے، آپ  کی شخصیت اور سیرت بے داغ تھی، اس پر کوئی دھبّہ نہیں تھا، دشمنوں نے آپ  کو اَلصَّادِق اور الامین مانا ہے، لیکن اس کے باوجود انذارِ آخرت اور تکبیر رب کے کام کے لئے مزید تربیت ضروری تھی. سورۃ القلم میں فرمایا گیا وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ﴿۴﴾ اے نبی  ! آپ  خلق عظیم کا نمونہ ہیں. لیکن بایں ہمہ جو بارِگراں اور بھاری ذمہ داری آپ  کے کاندھوں پر آنے والی ہے اس کے لئے ایک اضافی تربیت کی ضرورت ہے اور وہ ہے قیام اللیل. اور اس میں کیا کیجئے وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا اس قرآن کا آپ  کے قلب مبارک پر نزول ہوا. اسے ٹھہر ٹھہر کر، رک رک کر پڑھنا ہے، جیسے کہ ہتھوڑے کی چوٹ پڑتی ہے. ایک بار کی چوٹ سے بات نہیں بنتی بلکہ بار بار کی چوٹ مقصد کو پورا کرتی ہے کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا ﴿۳۲﴾ (الفرقان:۳۲’’اسی طرح اُتارا کہ ہم اس کے ذریعے سے آپ کے دل کو ثبات عطا فرمائیں. لہذا پڑھ سنایا ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر‘‘. تاکہ یہ قرآن آپ کے قلب میں جاگزیں ہو جائے.

یہ حکم اور یہ کام صرف حضور  کے لئے نہیں تھا، بلکہ حضور  کے ساتھ آپ  کی جو جماعت تیار ہو رہی تھی اُس کے لئے بھی تھا. چنانچہ اسی سورۃ المزمل کے دوسرے رکوع میں فرما دیا، جو بعد میں نازل ہوا ہے اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَ نِصۡفَہٗ وَ ثُلُثَہٗ وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ ؕ یعنی ’’اے نبی  ! ہمیں خوب معلوم ہے کہ آپ  بھی اور آپ کے ساتھیوں کی ایک جماعت بھی دو تہائی رات اور آدھی آدھی رات اور تہائی رات کے قریب کھڑے رہتے ہیں‘‘. مراد ہے وہ ترتیل قرآن کا کام سر انجام دے رہے ہیں جس کا حکم ابتداء میں صرف آپ  کے لئے آیا تھا… یہ ہے تربیتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ کا جامع ترین لائحہ عمل جس میں قراء تِ قرآن، اقامتِ صلوٰۃ اور رات کا جاگنا تین چیزیں جمع ہو گئیں. اندازہ کیجئے کہ نصف رات تو بہت ہی زیادہ ہے لیکن ایک تہائی شب بھی کم نہیں ہے. اگر سردیوں کی رات چودہ گھنٹوں کی اور گرمیوں کی رات نو گھنٹوں کی ہو تو بالترتیب قریباً ساڑھے چار گھنٹے اور تین گھنٹے تو لگائے جائیں گے تب کہیں جا کر کم ازکم تقاضا پورا ہو گا… یہ تھا قیام اللیل کا مکی دور میں کم ازکم نصاب… مکی دور کے اواخر میں سورۂ بنی اسرائیل میں اِس کا مستقل نصاب بایں الفاظ بیان ہوا ہے وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ … دن کے اوقات میں تو اے نبی آپ  نماز پڑھتے ہی ہیں. ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ ہے اور بعض رکعتوں میں قرآن کا دوسرا حصہ بھی پڑھا جاتا ہے، اور نماز فجر تو گویا ہے ہی قرآن الفجر، لیکن آپ کے لئے یہ کافی نہیں ہے، لہذا رات کا ایک حصہ تو اس قرآن کو ساتھ لے کر جاگئے. یہ آپ  کے لئے زائد ہے. یہاں ’’فَتَہَجَّدۡ بِہٖ ‘‘ کا لفظ خاص طور پر قابل توجہ ہے. یعنی قرآن کے ساتھ جاگنا مطلوب ہے… آپ  کی وساطت سے اُمت اور خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے جو تکبیرِ رب، اقامت ِ دین، اظہار دین الحق علی الدین کلہ کے لئے کمر بستہ ہو جائیں، یہ نفل مشقت قرآن جمع صلوٰۃ ہے. تاکہ حالت نماز میں قرآن حکیم کو اپنے قلب و ذہن میں اتارنے کا یہ مؤثر ترین طریقہ جاری و ساری رہے. رات کی تنہائیوں میں طویل قیام میں ترتیل کے ساتھ قرآن کی قرأت دل کے آئینہ کو جس طرح صیقل کرتی ہے او راس سے قوتِ ارادی کو جو نمو حاصل ہوتی ہے اور اس سے روح کو جو کیف و سرور حاصل ہوتا ہے اس سے لذت آشنا وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کو یہ توفیق و سعادت ملتی ہے.