نبی اکرم  کی تربیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ تربیت ِ میدان میں اُتارنے کے لئے تھی، محض گوشے میں بٹھانے کی تربیت نہیں تھی. اس لئے کہ فوراً کشاکش یا عرف عام میں کشمکش شروع ہو جاتی تھی. جہاں زبان سے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا کلمہ نکلا فوراً مار پڑنی شروع ہو جاتی تھی. اب یہ جو مار پڑ رہی ہے تو یہ عملی تربیت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے. اگر اس کو جھیلو گے تو تمہاری قوتِ ارادی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی، تمہارے اندر صبرواستقامت کے اوصافِ عالیہ ترقی پاتے چلے جائیں گے. اگر یہ کشمکش نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ کسی شخص کو تیرنے کی تربیت خشکی پر دیں اور اسے بتائیں کہ تیرنے کے لئے یہ کرنا ہوتا ہے، وہ کرنا ہوتا ہے. لیکن سال بھر کی ٹریننگ سے بھی وہ شخص تیراک نہیں بنے گا، جبکہ زیرتربیت تیراک کو پانی میں اتاریئے اور اسے بتایئے کہ تیرنے کے لئے اسے ہاتھ، پائوں اور پورے جسم کو کس طرح استعمال کرنا ہے تو وہ چند دنوں میں بلکہ اگر کوئی ذہین ہو تو ایک ہی دن میں تیراک بن جائے گا… تو محمد  کی تربیت خانقاہی نہیں ہے. گوشے میں بٹھا کر دی جانے والی تربیت نہیں ہے.

غور کا مقام ہے، محمد رسول اللہ  نے یہ نہیں کیا کہ لوگوں کو نکال کر کہیں اور لے جائیں اور وہاں تربیت دیں، بلکہ یہ کیا ہے کہ جو شخص جہاں ہے، وہیں تربیت پائے اور وہ شخص وہیں کھڑے ہو کر کہے کہ میں ایک اللہ کو مانتا ہوں، میں جناب محمد  کو رسول اللہ تسلیم کر چکا ہوں اور آپ  کے نقش قدم اور آپ  کی سنت پر چلنے کا فیصلہ کر چکا ہوں، میں آخرت کے محاسبہ کا یقین رکھتا ہوں. اس پر کشمکش شروع ہو جائے گی. اپنے گھر میں کشمکش ہو گی. اہل و عیال اور رشتہ داروں سے کشمکش ہو گی. آج آپ ذرا کسی رسم کو چھوڑ کر دیکھئے، آپ کی برادری آپ کا حقہ پانی بند کر دے گی. ذرا آپ زمانے کے جو چلن ہیں، جو رواج ہیں ان کو چھوڑ دیجئے، آپ کو یہ نظر آ جائے گا کہ آپ کے بچوں کے لئے رشتے نہیں ملیں گے، آپ کی بچیوں کے لئے کہیں سے پیغام نہیں آئیں گے. یہ ہے اصل میں تربیت. صحابہ کرام ؓ نے ماریں کھا کر تربیت حاصل کی تھی. اُس دور سعید اور ہمارے دور میں جو فرق ہے وہ پیش نظر رہنا ضروری ہے. وہاں کلمہ طیبہ پڑھنے پر مار پڑتی تھی. جس نے کہا اَشْھَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ اسے ماریں پڑنا شروع ہو جاتی تھیں. یہاں تو آپ ہزار دانے کی تسبیح لے کر بیٹھ جائیں اور اس پر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہیں، کوئی مخالفت نہیں ہوگی، کوئی مار نہیں پڑے گی، بلکہ ایسے شخص کے احترام و توقیر میں اضافہ ہو گا کہ یہ شخص بڑا اللہ والا ہے. آپ راتوں کو جاگئے، قرآن کی تلاوت کو معمولات میں شامل کیجئے، نفلی روزوں کا اہتمام کیجئے، اس پر آپ کو کوئی مار نہیں پڑے گی، بلکہ اگر لوگوں کے علم میں بھی یہ بات آ جائے تو آپ کے تقویٰ اور تدیّن (۱کی دھوم ہو گی.

آج کے دور میں کشمکش جو شروع ہو گی وہ اس سے ہو گی کہ ’’میرے نزدیک ازروئے شریعت یہ کام غلط ہے، میں یہ نہیں کروں گا‘‘. بس آپ نے جوں ہی یہ کیا وہیں کشمکش شروع ہوگئی. آج جو کشمکش ہے وہ شریعت پر عمل کرنے کی کشمکش ہے. اُس مکی دور میں (۱) دینداری، دیانتداری شریعت نہیں تھی، صرف کلمۂ شہادت پر مار پڑتی تھی. لیکن یہ طے ہے کہ جب تک مار نہ پڑے، کشمکش نہ ہو، تربیت نہیں ہوتی. وہ تربیت خانقاہی تربیت ہے جس میں مار نہیں پڑتی. ایک شخص ایک گوشہ میں بیٹھا اوراد و وظائف کی تسبیحات پڑھ رہا ہے تو اس کا بھی فائدہ ضرور ہوگا، لیکن اس کا ہدف وہ نہیں ہے جو تربیت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا ہے. وہ تربیت انقلابی تربیت نہیں ہوگی، خانقاہی تربیت ہوگی. اگرچہ اس تربیت سے اچھا مسلمان وجود میں آئے گا، اسے روحانی ترفع حاصل ہوگا، وہ نیک ہوگا، صالح ہوگا، نماز میں اس کا جی لگے گا، ذکر اللہ میں اسے لذت حاصل ہوگی. یہ سب کچھ اسے حاصل ہو جائے گا لیکن وہ مرد میدان کبھی نہیں بنے گا، وہ باطل سے پنجہ آزمائی کبھی نہیں کر سکے گا. باطل اور طاغوت کو وہ کبھی نہیں للکار سکے گا. جبکہ یہاں وہ لوگ درکار ہیں جو میدان میں آئیں، باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے چیلنج کریں. اس کے لئے ضرورت ہے اُس تربیت کی جس میں ماریں پڑ رہی ہوں، جس میں گھر والوں اور ماحول کے ساتھ شدید کشمکش سے سابقہ پیش آیا ہو. اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے کہ ؎

تُو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت بنے تب کام چلے
اِن خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر!

محمدرسول اللہ  کے جان نثار ساتھی فی الواقع آگ میں جلے تھے. حضرت خباب بن الارت ؓ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا گیا تھا. اب جو شخصیت اِس طرح پک گئی، پختہ ہو گئی، جس نے صبرومصابرت کا یہ مورچہ سرکر لیا وہ کیا میدان میں کبھی پیٹھ دکھائے گی؟ یہ ہے انقلابی تربیت جس پر جب آپ عمل شروع کرتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ’’یہ ہے میرا راستہ جس پر میں چلوں گا، چاہے والدین کو ناپسند ہو، چاہے اہل وعیال کو ناپسند ہو، چاہے رشتہ داروں کو ناپسند ہو‘‘ معاشرے کے ساتھ آپ کی کشمکش شروع ہو جائے گی. وہ شخص جو رشوت لے رہا ہے اور گھر والے عیش کر رہے ہیں وہ آج طے کر کے دیکھے کہ میں رشوت نہیں لوں گا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ سب سے پہلی لڑائی گھر میں ہو گی. اس لئے کہ جو دو دو پراٹھے کھاتے تھے اگر ان کو سوکھی روٹی پر گزارا کرنا پڑے تو سب سے پہلے دشمن خود اپنے گھر والے ہوں گے. جب تک اس قسم کی کشمکش درکشمکش نہیں ہوتی، اُس وقت تک وہ تربیت نہیں ہو گی جو اسلامی انقلاب کے لئے درکار ہے. کوئی شخص چالیس دن کے چلے کے لئے اپنے وطن سے دور تبلیغ کے لئے نکل جاتا ہے، وہاں اسے کوئی نہیں جانتا، اس کی عبادت اور نوافل دیکھ کر لوگ متاثر ہوں گے، مگر اپنے وطن میں وعظ و تبلیغ کرنا مشکل ہے کیونکہ لوگ آئینہ سامنے رکھ دیں گے کہ تم عملی زندگی میں رشوت اور سود سے پرہیز تو کرتے نہیں. پس اصل تربیت اپنے مقام اور ماحول میں ہوتی ہے جس طرح محمد رسول اللہ  نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی فرمائی.

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات