تصادم کے مراحل کے ذکر سے پہلے دو باتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے. پہلی بات یہ کہ ہمیں لفظ تصادم سے گھبرانا نہیں چاہئے. دوسری بات یہ کہ دُنیا کے سامنے ہمارا انداز جو معذرت خواہانہ(Apologetic) رہا ہے کہ اسلام میں تو صرف مدافعانہ جنگ ہے، تصادم اور جارحیت نہیں ہے، اس کو پہلے اپنے ذہن سے نکال دینا چاہئے. اس کا باعث اغیار کا یہ شدید اعتراض تھا کہ مسلمان قوم بڑی خونی قوم ہے اور اسلام کی جو بھی اشاعت و تبلیغ ہوئی ہے وہ تلوار کے زور سے ہوئی ہے ؏ ’’بوئے خوں آتی ہے اِس قوم کے افسانوں سے‘‘. اَغیار نے ہم پر یہ تُہمت اس شدومد سے لگائی کہ ہم ہاتھ جوڑتے ہی رہ گئے اور معذرت کے انداز سے اس الزام کو اپنے سر سے اُتارنے میں حد سے تجاوز کر گئے. یہ انداز اب بالکل بدل جانا چاہئے. اور الحمد للہ ہمارے بہت سے اصحابِ علم و فضل کی مُدَلَّل تحریروں کی بدولت بڑی حد تک یہ انداز بدل بھی گیا ہے، لیکن ایسے نام نہاد دانشوروں کی ابھی اچھی خاصی تعداد خود ہمارے یہاں موجود ہے جن کے ذہنوں پر سابقہ دور میں بنی ہوئی فضا کی چھاپ اب بھی موجود ہے اور وہ اسی فضا میں سانس لے رہے ہیں اوریہی راگ الاپتے رہتے ہیں کہ اسلام میں صرف مدافعانہ جنگ ہے، اسلام میں کوئی جارحانہ جنگ نہیں ہے، حضور  نے صرف مدافعت کے لئے جنگ لڑی ہے، حضور  نے کبھی بھی پیش قدمی کر کے جنگ کا آغاز نہیں کیا، وغیرہ وغیرہ. یہ باتیں جس انداز سے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی ہیں وہ انداز بالکل غلط ہے، اِس کو بالکل ختم ہونا چاہئے.