تصادم کا آغاز انقلاب کے علمبردار کرتے ہیں

یہ حقیقت ہے کہ کوئی انقلابی تنظیم یا انقلابی جماعت جب کسی معاشرے میں اپنی دعوت کا آغاز کرتی ہے تو محض یہ دعوت کا آغاز ہی اس کی طرف سے تصادم کا آغاز ہوتا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب اسی کا نام ہے کہ کوئی کھڑا ہو کر کہے کہ یہ نظام جو چل رہا ہے یہ سراسر غلط نظام ہے. جب رائج الوقت نظام کو غلط کہہ دیا جائے اور اس عزم کا اظہار کر دیا جائے کہ اس کو بدلنا ہو گا تو تصادم کا آغاز تو کر دیا گیا. اس لئے کہ جو مراعات یافتہ طبقات ہیں ،جن کے Vested Interests اس باطل نظام سے وابستہ ہیں، ان کی عافیت تو اسی میں ہے کہ رائج الوقت نظام قائم رہے، (Status quo (۱ برقرار رہے، دبے ہوئے طبقات جن بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں انہی میں بندھے رہیں، جس طرح کی جکڑ بندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں انہی میں جکڑے رہیں. ظالم اور استحصالی طبقات ہرگز (۱) علیٰ حالہٖ نہیں چاہیں گے کہ وہ جن ناجائز حقوق کے مالک ہیں وہ ان سے چھن جائیں. وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ نظام جیسا بھی ہے ویسا ہی رہے. جبکہ آپ کہتے ہیں کہ یہ نظام غلط ہے، اس کو ہم تبدیل کر کے رہیں گے یا اس جدوجہد میں ختم ہو جائیں گے. پس تصادم کا آغاز تو آپ نے کیا. جو بھی ہو، چاہے وہ فردِ واحد ہو، یا کوئی گروہ یا کوئی جماعت ہو. اگر آپ اس نظام کو غلط کہہ کر اس کی تردید کر رہے ہیں، اسے ظالمانہ اور استحصالی کہہ رہے ہیں، اس کو ختم کرنے کا داعیہ لے کر سامنے آئے ہیں تو گویا آپ نے رائج الوقت نظام کو چیلنج کیا ہے. 

یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ تصادم کا آغاز ہمیشہ انقلابی دعوت دینے والوں کی طرف سے ہوتا ہے، چاہے وہ کوئی فرد ہو، گروہ ہو، یا جماعت ہو. اگرچہ وہ جماعت ہاتھ نہیں اُٹھاتی، وہ کسی کو گالیاں نہیں دیتی، کسی کو کسی نوع کی جسمانی تکلیف نہیں پہنچاتی، لیکن وہ یہ دعوت لے کر اٹھتی ہے کہ پورا نظام غلط اور فاسد ہے اور اس داعیہ (۱کا اظہار کرتی ہے کہ یا تو اس نظام کو بیخ و بُن (۲سے اُ کھاڑ کر اپنے نظریہ کی بنیاد پر باکل نیا نظام قائم کر کے رہیں گے یا اسی کوشش اور جدوجہد میں ہم اپنی جانیں دے دیں گے. جناب محمد رسول اللہ  نے یہ کہہ کر تصادم کا آغاز فرمایا کہ ’’تمہارا مذہب غلط، تمہارا معاشرہ غلط، تمہارے اخلاق غلط، تمہارا پورا نظام غلط‘‘. یہ صدیوں سے قائم و رائج نظام سے بغاوت ہے. یہ ان لوگوں کے خلاف چیلنج ہے جو اس نظام میں قیادت و سیادت کے مناصب پرفائز ہیں اور جو اس نظام سے ناجائز اور استحصالی طور طریقوں سے اِنتِفاع (۳کر رہے ہیں. پس تصادم کا آغاز داعی ٔ انقلاب کرتا ہے اور وہ جماعت کرتی ہے جو اِس دعوت کو قبول کرکے داعی ٔ انقلاب کے اَعوان (۴و انصار پر مشتمل ہوتی ہے.

انقلابی جدوجہد کے ابتدائی مراحل اور اس کے بعد تصادم کے مرحلے کو علامہ اقبال کا یہ شعر بڑے اچھے انداز میں واضح کرتا ہے ؎ 

با نشّۂ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن

(۱) خواہش (۲) جڑ اور بنیاد (۳) فائدہ اٹھانا (۴) عون کی جمع، حامی ، مددگار 
اب جبکہ افراد پختہ ہو گئے تو اب اپنے آپ کو سلطنت جم پر دے ماریں. یہاں ’’سلطنت جم‘‘ سے بطور استعارہ وہاں کا رائج نظام مراد ہے. انقلاب اسی طرح آئے گا. اگر وہ طاقت محفوظ پڑی رہے، وہ Potential جو فراہم ہوا ہے وہ غیر متحرک اور غیر فعال رہے تو ظاہر بات ہے کہ انقلاب نہیں آ سکے گا. لہذا اس شعر سے بھی اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ تصادم کا آغاز درحقیقت انقلابی جماعت کی طرف سے ہوتا ہے اور تصادم انقلاب کا ناگزیر خاصہ ہوتا ہے.