درحقیقت تصادم کا آغاز تو اسی لمحہ ہو جاتا ہے جس لمحہ انقلابی دعوت شروع ہوتی ہے، لیکن ابھی اس انقلابی جماعت کو کچھ مہلت درکار ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی دعوت کی توسیع کر سکے، لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اسے قبول کریں، اس جماعت میں شامل ہوں. پھر ان کی تربیت ہو، ان کو منظم کیا جائے. اس کام کے لئے بڑا وقت اور مہلت درکار ہے. جس کو انگریزی میں کہتے ہیں "To buy time" یعنی اپنے دشمنوں سے وقت کو خریدنا ہے، ان سے کچھ مہلت لینی ہے. لہذا پہلا مرحلہ ہوتا ہے صبرِ محض (Passive Resistance) کا. مُعانِدین (۱و مخالفین داعی کو پاگل، دیوانہ، مجنوں اور بیوقوف کہیں گے، مگرحکمتِ دعوت کا تقاضا ہے کہ ان سب کو برداشت کیا جائے اور جواباً زبان سے کوئی نازیبا جملہ نہ نکلے، ان مخالفین کے تمام استہزاء و تمسخر کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے، مصابرت و استقامت کا مظاہرہ ہو، اپنے موقف پر ڈٹ کر دعوت و تبلیغ کا فرض کماحقہ ادا ہوتا رہے. جب مخالفین اس میں ناکام ہو جائیں گے اور دیکھیں گے کہ انہوں نے جس کو مُشتِ غبار سمجھا تھا اور اسے چٹکیوں میں اڑانا چاہا تھا، وہ تو زبردست آندھی بنتی نظر آ رہی ہے، عام لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو متاثر کر رہی ہے اور وہ داعی کے اعوان و انصار بن کر اُٹھ رہے ہیں، تو پھر مخالفین آگے بڑھیں گے. (۱

دشمن ، مُعَانِد کی جمع اس طرح دوسرا مرحلہ تشدد کا شروع ہوتا ہے. معاندین دعوت قبول کرنے والوں پر ظلم و ستم اور مصائب کے پہاڑ توڑتے ہیں. دہکتی آگ پر ننگی پیٹھ لٹاتے ہیں. مکہ کی سنگلاخ اور توے کی طرح تپتی ہوئی زمین پر کھینچتے ہیں. برچھی سے ایک مظلوم خاتون کو نہایت بہیمانہ طور پر ہلاک کرتے ہیں. کسی کے ہاتھ پاؤ ں سرکش اونٹوں سے باندھ کر انہیں اس طرح بھگاتے ہیں کہ جسم کے پرخچے اڑ جاتے ہیں. کسی کو چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں چھوڑتے ہیں. کسی کو مادر زاد ننگا گھر سے نکال دیتے ہیں. کسی کو اتنا پیٹتے ہیں کہ بس مرنے کی کسر رہ جاتی ہے. داعی الی اللہ  پر دست درازی کرتے ہیں. آپ  کے راستے میں کانٹے بچھاتے ہیں. آپ  کے گھر میں غلاظت پھینکنا معمول بنا لیتے ہیں. آپ  کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے ہیں کہ چشم ہائے مبارک ابل پڑتی ہیں. آپ  کی پشت مبارک پر عین سجدہ کی حالت میں اونٹ کی نجاست بھری اوجھری رکھ دیتے ہیں.

آپ  پر پتھروں کی اس قدر بارش ہوتی ہے کہ جسم اطہر لہولہان ہو جاتا ہے. آپ  کا معاشی مُقَاطِعہ (۱ہوتا ہے اور آپ  کو تین سال تک آپ  کے قبیلے کے تمام لوگوں کے ساتھ، چاہے انہوں نے دعوت قبول کی ہو یا نہ کی ہو، ایک وادی میں محصور کر دیا جاتا ہے… لیکن حکم ہے کہ معاندین و مخالفین کے ان تمام متشددانہ طرز عمل کو برداشت کرو ، جواب میں اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ مت اُٹھاؤ. البتہ اپنے موقف پر ڈٹے رہو، اس سے پیچھے نہ ہٹو، کوئی بھی معافی اور توبہ نامہ دے کر ان مصائب سے بچنے کا خیال بھی دل میں نہ لائے. لیکن ہاتھ اُٹھانے کی قطعی اجازت نہیں ہے. جواب میں تشدّد کرنے کی اجازت نہیں ہے. یہ ہے صبر محض.

صبر محض کا یہ مرحلہ جناب محمد رسول اللہ  کی سیرتِ مطہرہ میں مسلسل بارہ برس تک جاری رہا. اور اس بارہ سال کے عرصہ میں اس بہیمانہ تشدد کی وجہ سے نہ تو کسی نے کمزوری دکھائی، نہ اپنے موقف سے ہٹا اور نہ ہی کسی نے جواباً ہاتھ اُٹھایا. ان حالات میں عام طور پر لوگ desperate (۲ہو کر مشتعل ہو جاتے ہیں لیکن یہ کمال ہی نہیں معجزہ ہے جناب محمد  (۱) بائیکاٹ (۲) مایوسکی تربیت و تزکیہ کا، کہ ایک شخص نے بھی آپ  کے حکم اور ہدایت کی خلاف ورزی نہیں کی. نہ کوئی اپنے موقف سے ہٹا اور نہ کسی نے جواب میں ہاتھ اُٹھایا. یہ اہم ترین وقت تھا. یہی مہلت تھی جسے محمد رسول اللہ  نے بھرپور طریقے پر استعمال فرمایا. حق تو یہ ہے کہ ہمیں سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہی سے پورا فلسفۂ انقلاب سیکھنا ہے اور وہیں سے ہمیں اصول اخذ کرنے ہیں.