اس صبرِ محض (Passive Resistance) کے مرحلہ کی حکمت یہ ہے کہ ابتداء میں چند باہمت اور سلیم الفطرت لوگ اس انقلابی نظریہ کے قائل اور حامی ہوتے ہیں. اگر وہ لوگ Violent (۱ہو جائیں، یعنی تشدد کا جواب تشدد سے دینے لگیں تو اس غلط نظام کے علمبرداروں کو پورا اخلاقی جواز مل جائے گا کہ انقلاب کے حامیوں کو کچل کر رکھ دیں. جب تک انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھایا تو ان مخالفین و معاندین کے چودھریوں اور سرداروں کے پاس کوئی اخلاقی جوا زنہیں ہے. چنانچہ اس حال میں اگر وہ تشدد کر رہے ہیں تو بلاجواز کر رہے ہیں. اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رفتہ رفتہ عامۃ الناس کی ہمدردیاں اس انقلابی جماعت کے ساتھ ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان لوگوں کو آخر کیوں مارا اور ستایا جا رہا ہے، جبکہ یہ ہمارے معاشرے کے شریف، بے ضرر اور بہتر افراد میں سے ہیں. اور یہ لوگ خاموشی سے کیوں ماریں کھا رہے ہیں! اب ذرا چشم تصور سے دیکھئے کہ حضرت بلال ؓ کو مکہ کی سنگلاخ اور تپتی زمین پر گردن میں رسی باندھ کر اس طرح گھسیٹا جا رہا ہے جیسے کسی مُردہ جانور کی لاش کو گھسیٹا جاتا ہے. آخر دیکھنے والے بھی انسان تھے. ان کے اندر بھی احساسات تھے! اگرچہ ان میں جرأت اور ہمت نہیں کہ اس بہیمانہ ظلم پر صدائے احتجاج بلند کریں. ایسے لوگوں کو اصطلاح میں خاموش اکثریت (Silent Majority) کہا جاتا ہے.

یہ خاموش اکثریت اندھی اور بہری نہیں ہوتی. دیکھتی بھی ہے اور سنتی بھی (۱) مُتَشَدِّد ہے. خاموش تو ہے، بولتی نہیں ہے، لیکن وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی رہتی ہے کہ یہ کیسا ظلم ہو رہا ہے؟ وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ بلال ؓ جیسے محنتی اور فرض شناس غلام کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک کیوں ہو رہا ہے! خباب ؓ جیسے شریف النفس شخص کو دہکتے ہوئے کوئلوں پر کیوں لٹایا جا رہا ہے؟ خباب ؓ بن الارت پیشے کے اعتبار سے لوہار تھے. اور بڑے ہی نیک نوجوان تھے. حضور  کے دامن سے وابستہ ہو کر کردار مزید بلند ہو گیا. مکہ کے سردار ایمان لانے کی پاداش میں ان کو دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹا دیتے تھے. مکہ کے اندر یہ ظلم اہل مکہ دیکھ تو رہے تھے. مگر ظلم کرنے والے ابوجہل، ولید بن مغیرہ، امیہ بن خلف، عتبہ بن ابی معیط اور عتبہ بن ربیعہ وغیرہ بڑے بڑے چودھری اور سردار تھے. ان کے خلاف آواز اٹھانا کسی کے بس کی بات نہ تھی. تو عوام کا ان کے خلاف کھڑے ہونے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن اندر ہی اندر ہمدردی کے احساسات پیدا ہو رہے تھے، بقول شاعر کیفیت یہ ہو رہی تھی کہ ؏ ’’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ ‘‘. چنانچہ دل اندر ہی اندر فتح ہو رہے تھے. لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان مظلوموں نے کوئی جرم نہیں کیا، کسی کے ساتھ کوئی گستاخی نہیں کی، بس ایک بات کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد  اللہ کے رسول ہیں. بس یہی ان کا قصور ہے. کسی پر انہوں نے آج تک ہاتھ نہیں اُٹھایا، کسی کو انہوں نے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا، پھر ان کے ساتھ یہ ظلم اور تشدد کیوں ہو رہا ہے؟

اصل میں صبرِ محض کے مرحلے کی حکمت اور اس کا فلسفہ یہی ہے. کسی انقلابی جماعت کو اس ’’صبر محض‘‘ 
(Passive Resistance) کے دور میں تین ابتدائی کاموں کو کرنے کی مہلت ملتی ہے. یعنی دعوت زیادہ سے زیادہ پھیلانا، دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کرنا اور پھر اس مرحلے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کی تربیت کرنا. اس لئے کہ اگلے مراحل کی کامیابی کا انحصار انہی لوگوں پر ہے. گویا اگلے تمام مراحل کی کامیابی کا دارومدار ان تمہیدی و ابتدائی مراحل کی پختگی پر ہے. اگر ان مراحل کے تقاضوں کو کماحقہ ادا کیا گیا ہے اور انقلابی کارکنوں کی سیرت و کردار میں پختگی اور مضبوطی آ گئی ہے تب تو آگے چل کر کامیابی ہو گی، ورنہ وہی بات ہو گی کہ ریت کا گولہ بنا کر شیشے پر ماریں گے تو شیشہ کھڑا رہے گا اور وہ ریت بکھر جائے گی… پھر ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ ماریں کھا کر لیکن ہاتھ نہ اُٹھا کر ایک طرف ان کارکنوں میں قوتِ برداشت اور قوتِ ارادی پروان چڑھتی ہے، اپنے نظریہ سے ان کی وفاداری مضبوط ہوتی ہے اور اس پر انہیں استقامت حاصل ہوتی ہے، جیسے خام سونا کٹھالی میں تپ کر کندن بنتا ہے اسی طرح ان انقلابی کارکنوں میں مظالم و مصائب کی بھٹیوں سے گزر کر ایک آہنی عزم اور پہاڑوں سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور ان میں ایثار و قربانی کا جذبہ اپنے نقطہ ٔ عروج کو پہنچ جاتا ہے. اور دوسری طرف جو ر و تعدی، تشدد اور ظلم وستم جھیل کر یہ لوگ معاشرہ کی خاموش اکثریت کے دل جیتتے چلے جاتے ہیں.