داعی کی کردار کشی اور نفسیاتی حربے

اس صبرِ محض کے بھی دو مراحل ہیں. پہلا مرحلہ وہ ہوتا ہے جس میں زبانی کلامی تشدد ہوتا ہے. یعنی کوفت پہنچاؤ، ذہنی اذیت پہنچاؤ، لیکن کوئی جسمانی تشدد اور جسمانی تکلیف نہ دو. اس مرحلہ پر اصل ہدف اور نشانہ خود داعی بنتا ہے، اس کے ساتھی ہدف نہیں بنتے. اس لئے کہ ابتداء میں لوگ محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص ہے جس کا دماغ خراب ہوا ہے اور یہ ہمارے نوجوانوں کے دماغ خراب کر رہا ہے. ان نوجوانوں کو تو انہوں نے Reclaim (۱کرنا ہے، انہیں واپس لینا ہے، لہذا اُن کے خلاف ابھی ہاتھ نہیں اُٹھائے جائیں گے بلکہ داعی کی شخصیت کو مجروح کرنے (Character Assassination) کردار کُشی کی کوشش ہوگی. کہا جائے گا یہ پاگل ہے، fanatic ـ (۲ہے، ساحر ہے، شاعر ہے اور دیوانہ ہے. سیرتِ مطہرہ میں یہ ساری ہی باتیں ملتی ہیں، جن کا تذکرہ ابتدائی مکی سورتوں میں آتا ہے.

مکی دور کے قریباً تیرہ برس کے ابتدائی تین سال میں صرف نبی اکرم  پر تشدد ہوا ہے اور تشدد جسمانی نہیں بلکہ صرف زبانی کلامی تشدد کہ ان کو کوفت پہنچاؤ، انہیں ذہنی اذیت پہنچاؤ. جیسے کہ قرآن مجید میں سورۃ الحجر میں ان معاندین و مخالفین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا (۱) واپس لینا (۲) جنونی الَّذِیۡ نُزِّلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ اِنَّکَ لَمَجۡنُوۡنٌ ؕ﴿۶﴾ اگر عربی زبان سے ذرا سی واقفیت ہو تو اندازہ ہو گا کہ کتنا زہر میں بجھا ہوا یہ جملہ ہے ’’اے فلانے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی ذکر نازل ہو رہا ہے، ہم تو تم کو پاگل سمجھتے ہیں‘‘. اب یہ بات بھی محمد رسول اللہ  نے سنی. غور کیجئے آپ  کی طبیعت پر اس کا کس قدر اثر ہوا ہوگا. اس کو کہتے ہیں اعصابی جنگ (War of Nerves) یعنی کسی طرح سے ان کی قوتِ ارادی کو ختم کر دو، ان کے اندر جو آہنی عزیمت ہے کسی طرح اس کو پگھلا کر رکھ دو.اسی سورۃ الحجر کے آخر میں یہ الفاظ ہیں وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ ’’(اے محمد  ) ہمیں خوب معلوم ہے کہ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس سے آپ  کا سینہ بھنچنے لگتا ہے (آپ کو شدید ذہنی اذیت و کوفت ہوتی ہے)‘‘.

داعی سوچتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو کل تک میرے قدموں تلے آنکھیں بچھاتے تھے، جو مجھے دیکھتے ہی کہا کرتے تھے جَائَ الصَّادِقُ، جائَ الْاَمِیْنُ …ہر جگہ خیر مقدم ہوتا تھا، ہر ایک مجھ سے محبت کرتا تھا، ہر شخص میرا احترام کرتا تھا، لیکن یہی وہ لوگ ہیں جو آج میرا استہزاء و تمسخر کر رہے ہیں، کوئی مجنون و دیوانہ کہہ رہا ہے، کوئی شاعر و ساحر کہہ رہا ہے. سورۃ الدخان میں فرمایا وَ قَالُوۡا مُعَلَّمٌ مَّجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۱۴﴾ ’’اور انہوں نے کہا کہ یہ تو (معاذ اللہ) سکھایا پڑھایا باؤلا ہے‘‘. یعنی آپ  کوکوئی اور سکھاتا پڑھاتا ہے او ریہ آ کر ہم پر دھونس جماتے ہیں کہ یہ کلام مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہو رہا ہے. ذرا اندازہ لگایئے کہ حضور  کے قلب مبارک پر کیا گزرتی ہو گی جب یہ باتیں کہی جاتی ہوں گی. مزید برآں آپ  کے متعلق یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان پر کسی آسیب کا سایہ ہو گیا ہے. روایت میں آتا ہے کہ ایک روز حضور  کی خدمت میں عتبہ بن ربیعہ آیا جو قریش کے بڑے سرداروں اور چودھریوں میں سے تھا. نبی اکرم  کے معاندین و مخالفین میں سے یہ شخص بڑا شریف النفس تھا. وہ بڑے ہی مخلصانہ و مشفقانہ اور بڑے ہی مربیانہ وہمدردانہ انداز میں حضور  سے کہنے لگا کہ ’’بھتیجے! اگر واقعی تم پر کسی بدروح کا سایہ ہو گیا ہے تو مجھے بتا دو، میرے بہت سے عاملوں اور ماہر فن کاہنوں سے تعلقات ہیں، میں کسی کو بلا کر تمہارا علاج کرا دوں گا‘‘. غور کا مقام ہے کہ یہ سن کر حضور  کے قلبِ مبارک پر کیا گزری ہو گی. تشدد کا پہلا نشانہ بحیثیت داعی اوّل جناب محمد  کی ذاتِ اقدس تھی. استہزاء و تمسخر بھی بلاشبہ تشدد ہوتا ہے، بلکہ ذہنی اور نفسیاتی کوفت سے بڑا تشدد کوئی اور نہیں. جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ تکلیف انسانوں کو اُس وقت ہوتی ہے جب اسے ذہنی کوفت پہنچتی ہے.

چنانچہ ابتدائی تین سال تک اعصاب شکنی کی پوری کوشش ہوتی رہی تاکہ آپ  کے اعصاب ٹوٹ کر رہ جائیں اور آپ  میں وہ ہمت باقی نہ رہے کہ کھڑے رہ کر دعوت پیش کرتے رہیں. مخالفین کی طرف سے اس کی ایک اور انداز سے بھی کوشش ہوئی تھی. بعض عامل لوگوں نے بہت سی ریاضتوں کے ذریعہ سے اپنی آنکھوں کے اندر ایک خاص کشش اور چمک پید اکر لی ہوتی ہے اور قوتِ ارادی کو اپنی آنکھوں میں اس طور سے مرتکز کر لیاہوتا ہے کہ وہ کسی کو گھور کر دیکھیں تو وہ ہل کر رہ جائے او راس کی قوتِ ارادی پاش پاش ہو جائے. یہ نفسیاتی مشقیں دُنیا میں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں اور آج کے دور میں تو اس نے ایک باقاعدہ دفن کی صورت اختیار کر لی ہے. معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم  پر ایسی کوششیں بھی کی گئیں. سورۃ القلم میں فرمایا گیا ہے وَ اِنۡ یَّکَادُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّہٗ لَمَجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۵۱﴾ ’’یہ کفار جب ’’الذکر‘‘ یعنی قرآن سنتے ہیں تو یہ آپ  کو ایسی نگاہوں سے گھور کر دیکھتے ہیں گویا آپ کے قدم اکھاڑ دیں گے (آپ  کی آہنی قوتِ ارادی کو پاش پاش کر دیں گے) اور زبان سے کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) یہ ضرور مجنون و دیوانہ ہے‘‘. اسہتزاء و تمسخر کے یہ الفاظ آپ کے قلبِ مبارک پر تیر کی طرح جا کر لگ رہے ہیں. بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے عاملین کی باقاعدہ خدمات حاصل کی گئیں. پس یہ ہے تشدد کا پہلا دور یعنی داعی اوّل کو ذہنی کوفت پہنچانے کی ہر امکانی سعی و کوشش. چنانچہ پہلے تین سال میں کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کسی اور صاحبِ ایمان کے ساتھ یہ برتاؤ کیا گیا ہو. اس لئے کہ ان کے نقطۂ نظر کے اعتبار سے ’’فساد کی اصل جڑ‘‘ تو داعی اوّل ہی تھا جو یہ دعوت لے کر کھڑا ہوا. لہذا وہ کہتے تھے کہ کسی طریقہ سے اس کو اکھاڑ پھینکیں تو فساد ختم ہو جائے گا. ہمارے کچھ جوشیلے اور سرپھرے نوجوان ہیں اور ہمارے شرفاء میں سے بھی کچھ لوگ اس کی باتوں میں آ گئے ہیں، لیکن اگر ہم نفسیاتی و ذہنی حملوں کے ذریعہ سے اسی داعی ٔ اوّل کو بددل (Disheart) کر دیں اور اس کی قوتِ ارادی کو ختم کر دیں تویہ سب سے کامیاب حربہ ہے. پھر کامیابی ہی کامیابی ہے.