گاندھی کا نظریۂ عدم تشدد اور حضرت مسیحؑ کے اقوال

نبی اکرم  کے اسوۂ حسنہ سے اغیار نے بھی بہت سے سبق حاصل کئے ہیں. چنانچہ مناسب وقت پر عدمِ تشدد کا مسنون انداز بھی غیروں نے اپنایا ہے. اس کی مثالوں میں سے ایک مثال مسٹر گاندھی کی ہے. گاندھی نے عدم تشدد کا جو نظریہ اختیار کیا وہ درحقیقت حضور  کی سیرت سے ماخوذ ہے. اس لئے کہ اس سے پہلے یہ چیز صرف دو جگہ نظر آتی ہے. یا جناب محمد  کی حیات ِ طیبہ میں، مسلسل بارہ برس. اس سے بڑا اور طویل عرصہ کہیں نظر آئے گا ہی نہیں… یا پھر حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی کے تین سالوں کے دوران.

حضرت عیسیٰ ؑ کے اقوال یہ ہیں کہ ’’اگر کوئی تمہارے داہنے گال پر تھپڑ مارے تو باہنا بھی پیش کر دو‘‘. اور یہ کہ ’’اگر کوئی نالش 
(۱کر کے تمہارا چوغہ لینا چاہے تو تم کُرتا بھی اتار کر دے دو‘‘. اور ’’تمہیں کوئی بیگار میں اپنے ساتھ ایک کوس لے جانا چاہے تو تم دو کوس جاؤ‘‘.… یہ درحقیقت بالکل ابتدائی اور تمہیدی دور کی تعلیم ہے جس میں دعوت و تبلیغ کے ساتھ ہی مصائب و تشدد کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے. اس کے لئے حضرت مسیح ؑ صبر محض اور ایثار و قربانی کی تعلیم دے رہے ہیں، تاکہ ایک طرف معاندین و مخالفین کا بغض اور خبث ِ باطن آشکارا ہو جائے، تو دوسری طرف اہل ایمان میں قوت برداشت پیدا ہو. اب یہ مشیت ِ الٰہی تھی کہ اسی صبر محض (Passive Resistance) کے دور میں آنجنابؑ کا رفعِ آسمانی ہو گیا. گو کہ یہودیوں نے تو اپنی دانست میں آنجناب ؑ کو صلیب پر چڑھوا کر (۱) شکایت، عدالت میں حق طلبی کا دعویٰ دم لیا تھا. عیسائیوں کی عظیم ترین اکثریت بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا چلی آ رہی ہے، جبکہ انجیل برنباس میں وہی باتیں بیان ہوئیں جو قرآن میں ہوئیں ہیں اور جو حقیقت و صداقت پر مبنی ہیں. کتاب و سنت کے مطابق آپؑ جسدِ خاکی کے ساتھ زندہ آسمان پر اُٹھا لئے گئے اور وہاں جسم و روح کے اِتصال کے ساتھ زندہ ہیں. قربِ قیامت میں آنجناب ؑ کا نزول ہوگا، آپؑ بنفس نفیس آسمان سے نزول فرمائیں گے. اس وقت آپؑ کے ہاتھ میں تلوار بھی ہو گی یعنی آپؑ قتال فرمائیں گے اور سیرتِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مدنی دور کی جھلک بھی دُنیا سیرتِ عیسوی علیٰ نبیّنا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام میں دیکھ لے گی. آپؑ اس نزول کے وقت نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ  کے اُمتی ہوں گے. آپؑ کے ہاتھوں یہودیوں کو عذابِ اِسْتِیْصَال (۱کا مزا چکھنا ہو گا. دجالِ اکبر آنجنابؑ کے ہاتھوں قتل ہو گا. یہودی دُنیا سے اسی طرح نیست و نابود کر دیئے جائیں گے جیسے قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط اور اصحابِ مدین وغیرہ وقت کے رسولوں کی تکذیب کے جرم میں اس دُنیا سے بھی نسیاً منسیّا کر دی گئیں اور آخرت کا عذاب تو ان کا مقدر ہے ہی.

سیرتِ عیسوی ؑ میں چونکہ ’’اِقدام‘‘ 
(Active Resistance) کا دور آیا ہی نہیں، لہذا مسلح تصادم کا دور کیسے نظر آتا؟ حضرت عیسیٰ ؑ کوئی نیا نظامِ شریعت لے کر تشریف نہیں لائے تھے بلکہ شریعت ِ موسوی ؑ کی تجدید و احیاء کے لئے مبعوث ہوئے تھے. چنانچہ موجودہ اناجیل میں آپؑ کے ’’پہاڑی کے وعظ‘‘ میں یہ قول آج بھی موجود ہے کہ ’’جہاں تک قانونِ شریعت کا تعلق ہے میں اسے بدلنے نہیں آیا. قانون تورات ہی کا نافذ رہے گا‘‘. خود قرآن میں قصاص کا قانون تورات کے حوالے سے بیان ہوا ہے اور شریعت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں تورات کے اس قانون کو باقی رکھاگیا ہے. تو کیسے ممکن تھا کہ قصاص کے اس قانون کو حضرت مسیح ؑ ساقط کر دیتے. لیکن قانون اور ہوتا ہے، دعوت و تبلیغ کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں. دعوت و تبلیغ کے ابتدائی دور میں کسی طرح (۱) جڑ سے اکھیڑنے والا عذاب بھی قصاص کی اجازت نہیں ہوتی. اس موقع پر حکم ہوتا ہے ’’کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ ‘‘ حضرت مسیحؑ کے اقوال میں اگر تدبر اور غوروفکر سے کام لیا جائے ، تو وہاں بھی یہی حکمت کار فرما نظر آتی ہے.

اگرچہ تورات میں نازل شدہ قصاص کا یہ قانون پوری دُنیا میں زبان زدِ عام ہو گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور جان کے بدلے جان، لیکن مکی دور میں نبی اکرم  نے قصاص کے اس آفاقی و مسلمہ قانون کی بجاآوری سے صحابہ کرام ؓ کو روک رکھا تھا. ورنہ اگر ہاتھ اُٹھانے کی اجازت ہوتی تو بلال ؓ صبر و سکون کے ساتھ اُمیّہ بن خلف کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ نہ بنتے. وہ جان پر کھیل جاتے اور اس ظالم کو مزا چکھا دیتے. کیا جو ذہنی اور جسمانی کوفت و اذیت مکہ کی گلیوں میں مردہ جانور کی طرح کھینچے جانے کے باعث ہو رہی تھی، وہ جان دینے سے کم تھی؟… اگر اجازت ہوتی تو خباب ؓ بن الارت ننگی پیٹھ دہکتے ہوئے انگاروں پر لیٹنے کے بجائے کیا دو چار کو ساتھ لے کر نہ مرتے؟… ایک شخص دیکھ رہا ہے کہ یہ سارا اہتمام میرے لئے ہو رہا ہے. یہ دہکتے انگارے میرے لئے بچھائے جا رہے ہیں. ان سے کہا جاتا ہے کہ کرتا اتارو اور وہ اُتار دیتے ہیں. کہا جاتا ہے ان انگاروں پر لیٹ جاؤ اور وہ لیٹ جاتے ہیں.

ایساکیوں ہے؟ ورنہ آدمی پس و پیش کرتا ہے. آدمی مایوس (desperate) ہو جائے تو اس میں بے پناہ قوت پیدا ہو جاتی ہے. کمزور ہو تو بھی ایسے شخص میں مقابلے کی زبردست طاقت عود کر آتی ہے. مشہور ہے کہ اگر بلی کہیں گھیرے میں آ جائے اور اسے کسی طرف نکلنے کا راستہ نہ ملے تو وہ انسان پر حملہ آور ہو جاتی ہے. اس لئے کہ وہ جان لیتی ہے کہ اس کے سوا اس کے لئے کوئی چارہ نہیں. لیکن وہاں اس کی اجازت نہیں تھی. تو یہ بات بہت اہم ہے. معاذ اللہ! وہاں بزدلی کا معاملہ نہیں تھا. نہ معاذ اللہ بے غیرتی اور بے حمیتی کا کوئی معاملہ تھا کہ اہل ایمان یہ تشدد اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن حرکت نہیں کرتے. یہ فلسفۂ انقلاب ہے… اور گاندھی نے عدم تشدد کا فلسفہ یہیں سے سیکھا ہے. البتہ گاندھی کی حماقت یہ ہے کہ اس نے اسے مستقل فلسفہ بنا لیا. جبکہ یہ فلسفہ ایک دور کا فلسفہ ہے، کوئی مستقل فلسفہ نہیں ہے. اس لئے کہ اس درجے میں عدمِ تشدد کہ جس درجہ میں بعد میں جاکر گاندھی نے اس کی تبلیغ کی، وہ نری حماقت ہے. جن لوگوں کی نظر سے مولانا آزاد کی کتاب ’’India Wins Freedom‘‘ گزری ہے، ان کے علم میں ہو گا کہ وہ گاندھی کے اس فلسفہ کا مذاق اڑاتے ہیں کہ گزشتہ جنگ عظیم میں گاندھی نے اتحادیوں کو ہٹلر کے آگے عدمِ تشدد کے فلسفہ کے تحت ہتھیار ڈال دینے کی تلقین کی تھی. عدم تشدد کے فلسفہ کو اس سطح تک لائیں گے تو یہ پاگل پن ہے. لیکن ہاں، ایک انقلابی تحریک اپنے ابتدائی مرحلہ میں اسے اختیار کرتی ہے. گاندھی نے اس سے بڑا فائدہ اُٹھایا تھا. اس لئے کہ اگر شروع میں کانگریس کی پالیسی عدمِ تشدد کی نہ ہوتی تو انگریز آناً فاناً پوری تحریک کو کچل کر رکھ دیتا اور تحریک آگے نہ بڑھ سکتی. لیکن ان کی طرف سے عدمِ تشدد کے باعث حکومت کے ہاتھ بندھ گئے تھے کہ کیا کرے؟ یہ تشدد تو کر نہیں رہے. اسے عالمی رائے عامہ کا بھی لحاظ رکھنا تھا.