عدمِ تشدد کی ایک اور مثال سکھوں کی گوردوارہ پر بندھک تحریک ہے. سکھوں کے گوردواروں کے ساتھ جو اوقاف تھے ان پر قبضہ ہندوؤ ں کا تھا. چونکہ سکھوں کے بارے میں پورے طور پر یہ معین نہیں تھا کہ یہ کوئی علیحدہ مذہب ہے اور ہندو انہیں ہندو مت ہی کا ایک فرقہ قرار دیتے تھے، لہذا سکھوں کے گوردواروں کے اوقاف پر ہندو قابض تھے اور ان کی آمدنی میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرتے تھے. ایسا بھی ہوتا تھاکہ کچھ بڑے لوگ پٹواریوں کی مٹھی گرم کر کے کاغذات اور دستاویزات تبدیل کرا کے انہیں ذاتی ملکیت بنا لیتے تھے. (۱سکھوں نے تحریک چلائی کہ ہمارے گوردواروں اور ان کے اوقاف کا کنٹرول ہمارے پاس ہونا چاہئے. یہ کیا تماشہ ہے کہ عبادت گاہیں تو ہماری ہیں اور ان کے ساتھ جو (۱) جیسے ہمارے یہاں مزارات ہیں اور ان کے ساتھ اوقاف ہیں، تو گدی نشین صاحبان اُن کے ایک طرح مالک ہوتے ہیں. ہمارے یہاں بھی جب اوقاف ایکٹ بنا تو اِن گدی نشینوں میں سے بڑی اکثریت نے پٹواریوں کی مٹھی گرم کر کے بہت سی اِملاک کے لئے اپنے حق میں کاغذات اور دستاویزات مرتب کرا لیں اور اب اِن کی آمدنی پر عیش کر رہے ہیں.

(مرتب) املاک و اوقاف ہیں وہ ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں. لیکن آپ کو معلوم ہے کہ ہندو کی رسائی انگریز کے دربار میں بہت ہو چکی تھی. لہذا انگریز نے ہندوؤں کی پشت پناہی کی اور سکھوں کے اس معقول مطالبہ کو رد کر دیا. او رپولیس کو تو حکومت کی شہ او رپیسہ چاہئے. لہذا اس کی طرف سے بھی ہندوؤ ں کا پورا پورا ساتھ دیا گیا. بالآخر سکھوں نے اس تحریک کو عدمِ تشدد کے اصول پر چلانے کا فیصلہ کیا. چنانچہ احتجاج کے لئے سکھوں کا جو جتھا نکلتا تھا اس کو حکم تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھیں. ہر جتھا عموماً پچاس رضاکاروں پر مشتمل ہوتا تھا. غالباً دفعہ ۱۴۴ نافذ تھی، لہذا قانون کی خلاف ورزی ہو گئی. اور پولیس کو اختیار حاصل ہو گیا کہ ان پر لاٹھی چارج کرے، ڈنڈے چلائے اور ان کو منتشر کر دے… ادھر ان رضا کاروں کو یہ حکم تھاکہ اپنے ہاتھ بندھے رکھیں، ماریں کھائیں لیکن پیچھے نہ ہٹیں. حاجی عبدالواحد صاحب (۱مرحوم و مغفور، جو امرتسر کے رہنے والے تھے، وہ اس تحریک کے عینی شاہد تھے. انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لاٹھیاں پڑنے سے سکھ رضاکار کا سر پھٹ گیا اور وہ زمین پر گر گیا لیکن اس کے ہاتھ بندھے رہے. اس طرح جتھے کے تمام رضا کار زخمی ہو کر گرتے رہے لیکن کیا مجال کہ کسی کے ہاتھ کھلے ہوں. ایک جتھا اس بری طرح زخمی ہو گیا تو اس کی جگہ لینے دوسرا جتھا آ گیا. چنانچہ انگریز کو جھکنا پڑا اور سکھوں کی تحریک کامیاب ہوئی. اور ان کے گوردواروں کے اوقاف کا انتظام و انصرام ان کو مل گیا.