۱۹۸۴ء میں حیدرآباد دکن کے دعوتی دورے کے دوران میں نے متعدد تقریریں کیں اور قرآن حکیم کے دروس بھی دیئے. وہاں پر ایک صاحب، جو عثمانیہ یونیورسٹی کے ہیڈ آف پولیٹیکل سائنس کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے تھے انہیں میری فلسفۂ انقلاب والی تقریر بہت پسند آئی اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئے. بعد میں وہ مجھ سے ملنے آئے اور انہوں نے میری باتوں کی توثیق کے لئے بہت سے واقعات بتائے. انہوں نے علی گڑھ سے ایم اے کیا تھا. انہوں نے اپنے زمانہ ٔ طالب علمی کا ایک واقعہ سنایا، جو غالباً ۱۹۱۸ء کے آس پاس کا ہے. جنوبی افریقہ میں نسلی امتیازات کے خلاف گاندھی نے جو تحریک چلائی تھی، اس کی وجہ سے وہ پوری دُنیا میں مشہور ہو گئے تھے. کالج میں اعلان ہوا کہ گاندھی کالج آ رہے ہیں. اُس وقت تک علی گڑھ کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل نہیں تھا. لوگوں میں بڑا اشتیاق پیدا ہوا. وہ صاحب بتاتے ہیں کہ گاندھی آئے اور سیدھے اُس کمرے میں چلے گئے جس میں سرسید احمد خان مرحوم کی قبر ہے. وہاں وہ اکیلے پون گھنٹے تک سرسید مرحوم کی قبر کے پائنتی بیٹھے رہے. 

ایساکیوں ہوا! یہ اللہ جانے. گاندھی جب باہر آئے تو منتظمین اور طلبہ نے ان سے جلسہ سے خطاب کے لئے کہا. انہوں نے جواب دیا کہ میں تو صرف سرسید صاحب کی قبر کی زیارت کے لئے آیا تھا، مجھے اور کوئی کام نہیں ہے. جب بہت زور دیا گیا تو گاندھی نے کہا کہ پہلے میں پورے کالج اور ہوسٹل کا ایک چکر (Round) لگانا چاہتاہوں. اُس وقت ہوسٹل کی وہ صورت نہیں تھی جو آج کل ہے، اُس وقت علی گڑھ میں نواب زادوں، جاگیرداروں اور بڑے بڑے رئیسوں کے لڑکے پڑھتے تھے. ان کے کمروں میں قالین بچھے ہوئے تھے اور صوفے لگے ہوئے تھے. کالج کے طلبہ بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے تھے. گشت کے بعد گاندھی نے ہال میں مختصر سی تقریر کی، جس میں دو باتیں قابل ذکر ہیں. ایک یہ کہ ’’میں آپ حضرات کو خوشخبری دیتا ہوں کہ آپ کا یہ کالج جلد ہی یونیورسٹی بن جائے گا. اس کا فیصلہ ہو چکا ہے‘‘. دوسری خاص بات یہ کہی کہ ’’اگر آپ کا کالج یا آپ کی یونیورسٹی ایک بھی حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) پیدا کر دے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی.

لیکن میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آپ کا کالج یا یونیورسٹی ایک بھی حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) پیدا نہیں کر سکتی. اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے آپ کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ لئے ہیں، صوفوں اور قالینوں پر پڑھنے والے حضر ت عمر ؓ نہیں بن سکتے‘‘. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا کتنا گہرا مطالعہ تھا. کیا حضرت عمرؓ کو جانے بغیر کوئی شخص یہ بات کہہ سکتا ہے؟ میں نے جب اُن سے یہ واقعہ سنا تو فوراً میرا ذہن علامہ اقبال مرحوم کی اُس نظم کی طرف منتقل ہوا جو علامہ نے اسی زمانہ میں کہی تھی جس زمانے کا یہ واقعہ ہے. میرا خیال ہے کہ گاندھی کی اس تقریر کی اخبارات میں رپورٹنگ ہوئی ہو گی اور شاید علامہ نے اسی سے متاثر ہو کر یہ اشعار کہے ہوں گے کہ ؎

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل!
نہ زور حیدری ؓ (۱) تجھ میں نہ استغنائے سلمانی ؓ ! (۲