ہمارے یہاں بھی تحریکیں چلتی ہیں، گو وہ انقلاب کے لئے نہیں ہوتیں، صرف ایک ناپسندیدہ حکمران یا پارٹی کو ایوانِ حکومت سے بے دخل کرنے کے لئے ہوتی ہیں. لیکن ہوتا یہ ہے کہ تحریک کے قائدین کہا کرتے ہیں کہ جلوس تو ہم نے نکالا لیکن توڑ پھوڑ کوئی اور کر گیا. عجیب بات ہے. اگر آپ کی اتنی تنظیم نہیں ہے، اگر آپ کا اتنا کنٹرول نہیں ہے، اگر آپ کا اتنا ڈسپلن نہیں ہے تو آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ آپ سڑکوں پر آئیں. کیا طرفہ تماشا ہے کہ جلوس تو نکل رہا ہے حکومت وقت کے خلاف اور شامت آ رہی ہے قومی املاک کی. کہیں اسٹریٹ لائٹیں توڑ دی گئی ہیں، کہیں نیون سائن اور ٹریفک سگنلز کی شامت آ گئی ہے (۱) حضرت علیؓ جیسی طاقت (۲) حضرت سلمان فارسیؓ جیسی بے پروائی (۳) مبارک زمانہ
(۴) محترم ڈاکٹر صاحب نے یہ تقریر ۱۹/اکتوبر ۱۹۸۴ء کو مسجددارالسلام میں ارشاد فرمائی تھی. بعدازاں ’’نوائے وقت‘‘ کے ممتاز کالم نگار جناب م. ش مرحوم کا ایک خط ڈاکٹر صاحب کو موصول ہوا جس میں فاضل کالم نگار نے یہ انکشاف کیا کہ خان عبدالغفار نے ایک بار انہیں (یعنی م. ش صاحب کو) یہ بتایا کہ گاندھی نے عدمِ تشدد کا فلسفہ حضور کی سیرت سے اخذ کیا ہے.

(مرتب) اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بسوں کے ٹائر پھاڑے جا رہے ہیں، بسیں جلائی جا رہی ہیں. یہ نہیں سوچتے کہ ساٹھ ستر آدمیوں کو ہم نے بس سے اتار کر کھڑا کر دیا اور بس کو آگ لگا دی تو کیا وہ لوگ ہم کو دل میں گالیاں نہیں دے رہے ہوں گے؟ اور اس طرح رائے عامہ ہمارے حق میں جا رہی ہے یا خلاف جا رہی ہے؟ اب آپ سوچئے کہ اگر کسی کو چار پانچ میل دور کسی مقام پر جانا ہے تو اس پر کیا بیتی ہو گی؟ پھر ایسی حرکتوں سے برسراقتدار طبقہ کو کیا تکلیف پہنچتی ہے اور اس کا کیا نقصان ہوتا ہے؟ تکلیف پہنچتی ہے عوام الناس کو اور نقصان ہوتا ہے قومی املاک کا… اس کا نام مظاہرہ نہیں ہے، یہ تو درحقیقت فساد ہے، ہنگامہ ہے. اس کا کوئی حاصل نہیں ہے. نتیجہ خیز مظاہرے وہ تھے جن کا اوپر ذکر ہوا… اپنے حقوق کے لئے، اپنے جائز مطالبوں کے لئے کسی ظالم اور جابر برسراقتدار طبقے کے خلاف سڑکوں پر نکلنا پڑے تو نکلئے… لیکن اس شان سے کہ لاٹھی چارج سے سر پھٹ جائے، گولیوں کی بوچھاڑ سے جسم زخمی ہو جائے، آنسو گیس سے آنکھوں میں شدید اذیت پہنچے لیکن ہاتھ بندھے رہیں اور جواب میں کسی نوع کا بھی متشدّدانہ روایہ اختیار نہ کیا جائے. رہا توڑ پھوڑ، بسوں، موٹروں اور قومی املاک کو نقصان پہنچانا تو یہ فساد ہے، بدامنی ہے جو حکومت وقت کو پوری قوت کے ساتھ تحریک کو کچلنے کا اخلاقی اور قانونی جواز فراہم کرتی ہے.

عدمِ تشدد کی اوپر بیان کردہ مثالیں اگرچہ غیروں کی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سیرتِ نبوی  سے ماخوذ ہیں. جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ؎
ہر کجا بینی جہان رنگ وبو
آنکہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفی اُو را بہاست
یا ہنوز اندر تلاش مصطفی است

یعنی دُنیا میں جو کچھ بھی خیر اور بھلائی کہیں نظر آ رہی ہے وہ یا تو محمد رسول اللہ  کی عطا کردہ روشنی ہی سے حاصل کی گئی ہے یا ابھی نوعِ انسانی نورِ مصطفی کی تلاش میں ہے. یعنی غیر شعوری طور پر اُن راستوں کی تلاش میں ہے اور انہی کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے جو راستے محمد رسول اللہ  نے دیئے تھے.

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات