بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم

اقدام اور چیلنج 

؏ ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری!‘‘
؏ ’’چوں پختہ شوی خودرابر سلطنتِ جم زن!‘‘
اقبالؔ

خطبۂ مسنونہ، تلاوتِ آیاتِ قرآنی احادیث نبوی  اور ادعیہ ماثورہ کے بعد:

صبر محض 
(Passive Resistance) کے مرحلہ پر اگرچہ انقلابی جماعت کے کارکنوں کو سخت قسم کے تشدّد کا نشانہ بننا پڑتا ہے، تاہم انقلابی عمل کے لیے یہ مرحلہ نہایت اہم ہے، کیونکہ اس دوران ان کی مظلومیت کی وجہ سے معاشرے کی خاموش اکثریت (Silent Majority) کی ہمدردیاں رفتہ رفتہ اس انقلابی گروہ کے ساتھ ہونا شروع ہو جاتی ہیں. دوسری طرف خود انقلابی گروہ کو مہلت مل جاتی ہے جس میں انھیں نظم کی پابندی کا خوگر (۱بنایا جاتا ہے اور ان کی تربیت کی جاتی ہے کہ وہ بلاچون و چرا اطاعت امیر کے لیے تیار ہو جائیں. اس کے بعد جب انقلابی جماعت یہ محسوس کرے کہ اب ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ ہم اس باطل وفاسد، ظالم و استحصالی اور غلط نظام کے خلاف راست اقدام کر سکتے ہیں تو اب صبرِ محض کا مرحلہ راست اقدام میں تحویل ہو جائے گا.

سورۂ آل عمران کی آخری آیت میں امر کے صیغہ میں فرمایا گیا ہے 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا ’’اے ایمان والو! صبر سے کام لو، باطل کے علمبرداروں کے مقابلہ میں پامردی اور استقامت و ثبات کا مظاہرہ کرو، حق کا بول بالاکرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاؤ‘‘. یہاں ایک لفظ ’’صبر‘‘ اور دوسرا ’’مصابرہ‘‘ آیا ہے. ’’مصابرت‘‘ کا لفظ قرآن مجید مدنی دَور میں استعمال کر رہا ہے، جبکہ مکی دور میں ہمیں قرآن میں صرف صبر کا لفظ ملتا ہے. حضور  کو خطاب کر کے متعدد سورتوں میں مختلف اسالیب میں بار بار صبر کی تاکید کی گئی. مثلاً

فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ (الاحقاف) وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ (ھود) وَ اصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا (الطور) وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾ (المزمل) چنانچہ حضور  صبر کی اسی تاکید کو صحابہ کرام ؓ کی جانب منتقل فرماتے رہے. (۱) عادی آلِ یاسرؓ سے فرمایا اِصْبِرُوا یَا آلِ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ’’اے یاسر کے گھر والو! صبر کرو، برداشت کرو! اس لیے کہ تمہارے وعدہ کی جگہ جنت ہے‘‘.

مکی دَور میں جو سورتیں اور آیات نازل ہوئیں ان میں بار بار صبر کی تاکید ہے کہ جھیلو! برداشت کرو!… اور یہ صبریک طرفہ ہو رہا ہے. ابھی اہل ایمان پر ستم ڈھائے جا رہے ہیں اور وہ جھیل رہے ہیں. انھیں تشدد و مظالم کا ہدف بنایا جا رہا ہے ا ور وہ برداشت کر رہے ہیں اور کوئی بھی اپنے دفاع میں ہاتھ تک نہیں اُٹھا رہا. اس لیے کہ ابھی اس کی اجازت نہیں تھی. مکی دَور میں قرآن مجید میں صرف ’’صبر‘‘ کا لفظ ملے گا، جو یک طرفہ عمل ہے. جبکہ مدنی دَور میں یہ لفظ کچھ بدلی ہوئی شکل میں سامنے آتا ہے. اب مُصَابِرَہ یا مُصَابرت کا حکم آتا ہے. یہ لفظ باب مُفَاعِلَہ سے بنا ہے او راس باب کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں آمنے سامنے دو فریق ہونے لازمی ہیں. گویا ’’مصابرہ‘‘ کے معنی ہوں گے صبر کا صبر سے ٹکراؤ. یعنی وہ اگر تم پر زیادتیاں کر رہے ہیں تو اب تم بھی ان کے خلاف اِقدام کرو. معلوم ہوا کہ اب دوطرفہ صبر کا مظاہرہ ہو گا. مشرکین کو بھی جھیلنا پڑے گا، انہیں بھی جان کی بازیاں کھیلنی ہوں گی. اگر وہ اپنے باطل نظریہ اور فاسد نظام کا تحفظ چاہتے ہیں تو انہیں بھی قربانیاں دینی پڑیں گی. ’’مصابرہ‘‘ اسی عمل کا نام ہے کہ صبر کا صبر سے ٹکراؤ اور مقابلہ ہو. جس فریق میں قوتِ صبر یعنی برداشت کی طاقت زیادہ ہو گی بازی اس کے حق میں جائے گی. اب اسی مرحلے پر معلوم ہو گا کہ اہل حق اور اہل باطل میں سے کون سا فریق زیادہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کر سکتا ہے، کون اپنے مشن 
(Cause) کے لیے کتنی قربانیاں دے سکتا ہے! صبر جب مصابرت میں بدلتا ہے تو یہ درحقیقت صبرِ محض(Passive Resistance) کا اِقدام (Active Resistance) میں تبدیل ہو جانا ہے. دوسرے لفظوں میں ’’جہاد‘‘ ’’قتال‘‘ کے مرحلہ میں داخل ہو جاتا ہے.