انقلابی جدوجہد کا یہ مرحلہ انتہائی اہم ہے، یہ درحقیقت حضور  کی سیرت کا ایک نہایت نازک موڑ اور لمحہ (Critical Moment) ہے کہ نہج تبدیل ہو رہا ہے، صبر محض کی پالیسی ترک کر کے اِقدام کا فیصلہ کیا جا رہا ہے. یہی وجہ ہے کہ مستشرقین (۱نے اس کو تضاد قرار دے کر اس کا مُحَاکِمَہ (۲کیا ہے اور اس ظاہری تضاد کو کافی نمایاں کیا ہے. چنانچہ مسٹر منٹگمری واٹ نے سیرتِ مبارکہ پر دو علیحدہ علیحدہ کتابیں لکھی ہیں. ایک کا نام "Mohammad at Makka" اور دوسری کا نام "Mohammad at Madina" ہے. اس نے گویا یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مکہ والے محمد (  ) دراصل مدینہ والے محمد(  ) سے مختلف ہیں.

اس کے نزدیک مکہ والے محمد ایک داعی ہیں، مبلغ ہیں، مزکی ہیں، مربی ہیں. غرضیکہ ان حضرات کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اندر نبوت کے جو اوصاف نظر آتے ہیں وہ مکی دَور کی حد تک حضور  میں بھی نظر آتے ہیں. لیکن مدینہ میں نقشہ کچھ اور ہی نظر آتا ہے. وہاں حضور  کے ہاتھ میں تلوار ہے. آپ  فوج کے سپہ سالار اور جرنیل ہیں، آپ  مدینہ کی ریاست کے سربراہ ہیں. آپ  ہی چیف جسٹس کا رول ادا کر رہے ہیں. دوسری اقوام سے معاہدے کر رہے ہیں. گویا مدینہ میں محمد  ایک مُدَبِّر سیاست دان کے روپ میں نظر آ رہے ہیں. مشہور مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی (Arnold Toynbee) کہتا ہے:

".failed as a prophet but succeeded as a statesman  Muhammad" 

یعنی ’’محمد(  ) بحیثیت نبی تو ناکام ہو گئے، لیکن ایک سیاستدان کی حیثیت سے کامیاب رہے‘‘. (نعوذ باللہ من ذلک)

گویا منٹگمری واٹ کو بھی یہ پورا فکر اسی بات سے ملا ہے. یعنی انہیں مکہ والے محمد  میں تو نبوت کی شان نظر آ رہی ہے. اس لیے کہ اُن کے اذہان میں نبیوں کی جو تصویر ہے (مثلاً حضرت یحیی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام) وہی تصویر اُن کو محمد رسول اللہ  کی مکہ میں نظر آ رہی ہے. لیکن مدینہ میں سیرت محمدی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کا جو نقشہ ان کو نظر آتا ہے وہ ان کے خیال کے مطابق نبوت والا معاملہ نہیں ہے. وہاں تو ان لوگوں کو نبی اکرم  
(۱) مغربی ممالک کے عالِم جو مشرقی علوم سے دلچسپی رکھتے ہوں (۲) گرفت بحیثیت ایک سیاست دان و مدبر، ایک سربراہِ مملکت اور ایک جرنیل کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں. آخر یہ منہج عمل کیسے تبدیل ہوا ہے؟ وہ تحویلی مرحلہ (Transitory Phase) کب آیا اور کیسے آیا؟ اور محمد  نے نظامِ باطل کے خلاف راست اِقدام کیسے کیا تھا؟