جہاں تک جناب محمد رسول اللہ  اور دیگر انبیاء و رسل علیہم السلام کا معاملہ ہے، یہ فیصلے درحقیقت اللہ کی طرف سے وحی جلی یا وحی خفی کے ذریعے سے ہوتے تھے، یا اگر رسولاجتہادی طور پر کوئی قدم اُٹھاتے تو اللہ کی طرف سے اس کی تَصْوِیْب 
(۲یا اصلاح ہو جاتی تھی. لیکن اگر وحی کے ذریعے نہ تصویب ہوئی ہو نہ اصلاح تو گویا رسول  کے اس اجتہادی فیصلہ کو اللہ کی طرف سے خاموش توثیق حاصل ہو گئی. لہذا اس معاملہ میں رسول  تو محفوظ و مامون اور معصوم ہیں… اس ضمن میں حضور  کی سیرتِ مطہرہ میں ہمیں سفر طائف کی مثال ملتی ہے، جو حضور  کا ایک اجتہادی فیصلہ تھا. ۱۰ نبوی  میں جب مکہ میں (۱) معقول (۲) منظوری مشرکین نے دارالندوہ میں حضور  کے قتل کا فیصلہ کر لیا تھا تو حضور  نے طائف کا سفر اختیار فرمایا. اس فیصلہ کی تصویب یا اصلاح وحی کے ذریعے نہیں ہوئی… گویا اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ تھی کہ طائف والے بھی ہمارے رسول(  ) کے صبروثبات اور عزیمت کی خوب اچھی طرح جانچ پرکھ کر لیں. چنانچہ طائف میں ایک دن میں رحمۃ للعالمین  کے ساتھ وہ سلوک ہوا جو مکی زندگی کے دس برس میں نہیں ہوا. جس کو بیان کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے اور جس کو پڑھتے ہوئے دل کانپ جاتا ہے. وہاں دعوتی اعتبار سے حضور  کے لیے کامیابی کی کوئی صورت نہ بن سکی. اللہ تعالیٰ کی مشیت میں یہ بات طے شدہ تھی کہ ’’مدینۃ النبی ‘‘ بننے کی سعادت یثرب کے حصے میں آنے والی ہے، یہ سعادت طائف کے نصیب میں نہیں تھی. حالانکہ غور کیجئے کہ طائف میں دعوت و تبلیغ کے لیے حضور  بنفسِ نفیس تشریف لے گئے، لیکن وہاں سے ناکام لوٹنا پڑا اور دوسری جانب صورت یہ ہے کہ آپ  مکہ میں مقیم ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یثرب کے لیے کھڑکی کھول دی، جہاں سے آ کر اوّلاً چھ اور بعدازاں ۷۵ افراد نے آپ  سے بیعت کر کے اسلام قبول کر لیا.

گویا یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کا ہے کہ دارالہجرت یثرب کو بننا ہے، طائف کو نہیں. اللہ تبارک و تعالیٰ قدم قدم پر نبی اکرم  کی وحی متلو (یعنی قرآن مجید) اور وحی غیر متلو (یعنی کشف، القاء، اور رویائے صادقہ) کے ذریعے رہنمائی فرما رہا ہے. حضور  کے کسی اجتہادی عمل پر خاموشی ہے تو یہ گویا اللہ کی طرف سے اس کی توثیق و تائید ہے… لیکن مابعد کا معاملہ بالکل مختلف ہے. نبوت و رسالت کا اِتمام و اِکمال حضور  کی ذات پر ہو گیا. اب تاقیامِ قیامت کسی نوع کا نبی نہیں آئے گا. لہذا اس کے بعد جو بھی اسلامی احیائی تحریکیں اُٹھی ہیں یا اُٹھیں گی، ظاہر بات ہے کہ ان کی قیادت انبیاء و رسل علیہم السلام کے ہاتھوں میں نہ رہی ہے نہ رہے گی، بلکہ قیادت کی یہ ذمہ داری رسول اللہ  کے کسی اُمّتی ہی نے ادا کی ہے اور آئندہ بھی یہ کام کسی اُمّتی ہی کے ذریعے ہو گا. اور کوئی اُمّتی بھی معصوم عن الخطا نہیں ہے، معصومیت خاصہ نبوت ورسالت ہے. نبوت ورسالت ختم ہوئی تو معصومیت بھی ختم ہوئی. حضور  جہاں خاتم النبیین ہیں وہاں خاتم المعصومین بھی ہیں… شیعہ مکتب ِ فکر کا معاملہ بالکل علیحدہ ہے کہ وہ بزعم خویش (۱جن اماموں کو مامور من اللہ مانتے ہیں ان کو معصوم عن الخطاء بھی تسلیم کرتے ہیں.

اس امکان کو اپنے ذہن سے بالکل محو کر دیجئے اور جان لیجئے کہ اب تجدید دین اور احیائے اسلام کی جو تحریک بھی برپا ہو گی، اس کے ہر مرحلہ کا معاملہ اِجتہادی ہو گا اور اس اِجتہاد میں خطا کا امکان رہے گا. کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ خطا کا امکان نہیں ہے. جس نے یہ دعویٰ کیا وہ اہل سنت و الجماعت کے دائرے سے خارج ہو جائے گا.