برعظیم پاک وہند کے مسلمانوں کی تاریخ میں ’’تحریک شہیدین‘‘ کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں. سچ تو یہ ہے کہ دورِ صحابہ ؓ کے بعد، ایک خالص اسلامی تحریک ہونے کے اعتبار سے، تحریکِ شہیدین کے ہم پلہ کوئی دوسری تحریک نظر نہیں آتی. اس تحریک کے قائد سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ تھے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ بھی شامل تھے. تقویٰ، تدین اور خلوص و اخلاص کا اتنا بڑا سرمایہ دورِ صحابہ ؓ کے بعد اسلامی تاریخ میں کہیں اور نظر نہیں آتا. انفرادی سطح پر بڑی بڑی عظیم شخصیتیں ہر دَور میں نظر آتی ہیں. مُجَدّدینِ امت ہیں، آئمہ امت ہیں، محدثین کرام ہیں، فقہاءِ عظام ہیں. انفرادی سطح پر علم، تقویٰ، تدین اور خلوص و اخلاص کے اعتبار سے ان میں سے ہر شخص کوہ ہمالیہ نظر آتا ہے لیکن اجتماعی سطح پر، ایک گروہ اور ایک جماعت کی صورت میں، اتنے متقی و متدین حضرات اور اتنا خالص اسلامی جہاد بالسیف دَورِ صحابہ ؓ کے بعد کہیں اور نظر نہیں آ تا، واللہ اعلم. لیکن وہاں بھی ایک اِجتہادی خطا ہو گئی اور قبل ازوقت اِقدام ہو گیا.

حضرت سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ان ساتھیوں کی بھرپور تربیت کی تھی جن کو ساتھ لے کر وہ سرحد کے علاقہ میں پہنچے تھے. لیکن ان کی اصل جدوجہد پشاور اور مردان کے اضلاع سے شروع ہوئی تھی… وہاں جا کر اِقدام سے پہلے وہاں کے مقامی (۱) اپنے خیال کے مطابق باشندوں کی تربیت کی بھی ضرورت تھی. یا تو وہاں کے تمام خوانین (۱اور رعایا سید صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو قطعی طور پر اپنا امیر تسلیم کر لیتے او ر ان کے ہاتھ پر بیعت و سمع طاعت اور جہاد کر لیتے، تب بھی کوئی مضبوط اساس قائم ہو جاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا. البتہ ایک یا دو قبیلوں کے خوانین نے بیعت کر لی تھی جو کافی نہیں تھی. ہو ایہ کہ مقامی لوگوں کی تربیت سے پہلے اور وہاں اپنے آپ کو مستحکم (Consolidate) کرنے سے پہلے، ایک طرف سکھوں کے ساتھ جنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا. دوسری طرف اسلامی شریعت کی حدود و تعزیرات نافذ کر دی گئیں، جو مقامی لوگوں کے لیے بڑی شاق تھیں. اس لیے کہ وہ لوگ ایک مدت سے دین کے صحیح و حقیقی علم سے ناواقف تھے، اور اگرچہ وہ مسلمان تھے لیکن ان میں سے اکثر حقیقی ایمان کے لذت آشنا نہیں تھے. نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اکثریت نے سید صاحب کے خلاف سازشیں کیں، آپ کو زہر دیا گیا، مجاہدین کے کیمپوں پر شب خون مارا گیا اور بے شمار مجاہدین کو شہید کر دیا گیا. آپؒ کے خلاف مخبری کی گئی اور سکھوں کو مجاہدین کے لشکر کی نقل و حرکت اور اس کی قوت ووسائل کی خبریں پہنچائی گئیں. الغرض مقامی لوگوں کی اکثریت کی ناپختہ سیرت و کردار اور عدم تربیت کے باعث یہ عظیم اسلامی تحریک دُنیوی اعتبار سے ناکام ہو گئی.

تحریک شہیدینؒ کی مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلامی انقلاب کے لیے تربیت کی کیا اہمیت ہے اور اِقدام کے مرحلے کے لیے صحیح وقت کا تعین کیا اہمیت رکھتا ہے! سید صاحب کا حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے مقامی لوگوں کو سچا اور پکا مسلمان سمجھ کر اقدام کرنا اور سکھوں سے جنگ کا سلسلہ شروع کر دینا خطاءِ اجتہادی ہے اور اہل سنت کے نزدیک خطاء ِ اجتہادی پر بھی آخرت کا اجر محفوظ رہتا ہے. ایک انسان اپنی امکانی حد تک غور کرنے کے بعد اپنی رائے میں صحیح فیصلہ کررہا ہے، اس نے سوچ بچار اور غوروتدبر میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور اس کے بعد اس نے اِقدام کیا ہے تو اس کا اور اس کے ساتھیوں کا اُخروی اجروثواب بالکل محفوظ ہے، اس میں قطعاً کوئی کمی نہیں ہوگی، لیکن دنیوی اعتبار سے وہ جدوجہد اور وہ تحریک ناکام ہو جائے گی. یہ بات نہ صرف ماضی بلکہ آئندہ کے لیے بھی (۱) خان کی جمع ہے. بہرحال کسی تحریک میں وہ وقت آتا ہے کہ جب اس کے قائد کو ’’اِقدام‘‘ کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے. لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ پوری طرح سوچ بچار کر کے حدِ استعداد کے مطابق حالات کا پورا جائزہ لے کر اور اپنی جمعیت کی تعداد اور اس کی تربیت کو پوری طرح تول کر اِقدام کا فیصلہ کیا جائے اور اس میں بھی اس کا تمام تر توکل اللہ ہی کی ذات پر ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہی اصل حامی و ناصر ہے.

ایں سعادت بزورِ بازو نیست!
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ 

لیکن تحریک کا قائد اور اس کے ساتھی ذہناً اس کے لیے تیار رہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی خطا ہو جائے. اس لیے کہ اب کوئی نبی نہیں ہے، لہذا کوئی معصوم نہیں ہے.