ربیع الاوّل سے لے کر رمضان ۱ھ کے دوران رسول اللہ  نے کوئی مہم مدینہ منورہ سے باہر نہیں بھیجی. یہ چھ مہینے آپ  نے مدینہ میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے اور ہجرت کی وجہ سے اسلامی انقلابی جماعت کے جو دو عناصر وجود میں آگئے تھے، یعنی مہاجرین و انصار، ان کو باہم شیر وشکر کرنے اور بنیانِ مرصوص بنانے میں صرف فرمائے. اس کے بعد راست اِقدام کا مرحلہ شروع ہوتا ہے… وہ مرحلہ کیا ہے؟ اس کو صرف تاریخی اعتبار سے سمجھنے کے بجائے نبی اکرم  کے منہج انقلاب کے نقطۂ نظر سے سمجھنا چاہئے. حضور  نے آٹھ فوجی مہمات مکہ کی طرف روانہ فرمائیں، جن میں سے چار میں حضور  بنفس نفیس شریک ہوئے. لہذا انہیں غزوات کہا جاتا ہے. لیکن واضح رہے کہ یہ وہ غزوات ہیں جو غزوۂ بدر سے پہلے کے ہیں. عام طور پر ہمارا تصور اور تأثر یہ ہے کہ پہلا غزوۂ بدر ہے. پہلی باقاعدہ جنگ یقینا غزوہ بدر ہے. غَزَا یَغْزُو عربی میں اللہ کی راہ میں نکلنے کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً غزوہ خاص ہو گیا اس مہم کے لیے جس میں نبی اکرم  بنفس نفیس نکلے ہوں. تو ابتدائی چھ ماہ کے بعد چار فوجی مہمات وہ ہیں جن میں حضور  خود مدینہ سے باہر نکلے، جبکہ چار سرایا ہیں. سَرِیّہ اُس فوجی مہم کو کہا جاتا ہے کہ آپ  نے کوئی مہم بھیجی یا کوئی لشکر روانہ فرمایا اور کسی صحابی ؓ کو اس کا سربراہ یا سپہ سالار مقرر فرما دیا، آپ  خود اس میں شامل نہیں ہوئے. ان آٹھ مہموں کے حالات و واقعات کو ہمارے اکثر سیرت نگار اور مؤرخین نے بمشکل تمام دو یا تین صفحات میں سمیٹ لیا اور اس میں بھی نہایت ایجاز و اجمال (۱سے (۱) اختصار کام لیا. حالانکہ یہ نبی اکرم  کی سیرتِ مبارکہ کا وہ اہم اور نازک مرحلہ ہے جس میں اِقدام او رپیش قدمی اب حضور  کی طرف سے ہو رہی ہے. یا بالفاظ دیگر صبرِ محض (Passive Resistance) اب ’’راست اِقدام‘‘ (Active Resistance) میں تبدیل ہو رہا ہے.

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس راست اِقدام کی نوعیت تھی کیا؟ اصل میں رسول اللہ  نے مکہ کے خلاف جو اِقدام کیا اس کے دو مقصد سامنے آتے ہیں. جدید اصطلاحات کے حوالے سے پہلا مکہ کا
(Economic Blockade) یعنی معاشی ناکہ بندی ہے. اہل مکہ اور قریش کی معاشی زندگی کا دارومدار تجارت پر تھا. مکہ کا اپنا حال بالفاظ قرآن بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ تھا. وہاں کسی نوع کی پیداوار نہیں ہوتی تھی. وہ تو کھانے پینے کی چیزوں کے لیے باہر کی منڈیوں کے محتاج تھے. وہاں ایک دانہ تک نہیں اُگتا تھا. البتہ ان کے ہاں بھیڑ بکریاں اور اونٹ تھے، جن کا دودھ اور گوشت انہیں حاصل تھا. لہذا ان کی معیشت کا سارا دارومدار تجارت پر تھا، اور اُس دَور کی مشرقی اور مغربی ملکوں کے مابین تجارت میں قریش کو ایک اہم کڑی اور واسطہ (Link) کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی. غور کیجئے کہ آج کل نہر سوئیز کی کتنی اہمیت ہے.

اگر یہ کچھ عرصہ کے لیے بند ہو جائے تو تجارت کا کیا حال ہو جائے گا؟ اگرچہ دوسرے راستے موجود ہیں جو بہت طویل ہیں. لیکن آپ اُس زمانے کا تصور کیجئے جس زمانہ میں اور کوئی راستہ تھا ہی نہیں. جنوبی افریقہ سے ہندوستان اور مشرقی ایشیا کے بحری راستے تو پندرھویں صدی عیسوی میں دریافت ہوئے ہیں. لہذا مشرق و مغرب کی تجارت حضور  کی بعثت کے دَور میں عرب کے راستہ سے ہوتی تھی. ہوتا یہ تھا کہ ہندوستان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دوسرے مشرقی ممالک کا سارا سامانِ تجارت بڑی بڑی کشتیوں کے ذریعے یمن کے ساحل تک پہنچتا تھا. اُدھر مغرب کے ممالک یعنی یونان، اٹلی اور بلقان کی ریاستوں کا سارا سامانِ تجارت شام کے ساحلوں پر اتر جاتا تھا. اس طرح یورپ کے ممالک کا سامانِ تجارت بحیرۂ روم سے ہو کر اِدھر پہنچتا تھا اور اِدھر بحیرۂ عرب اور بحیرۂ ہند سے ہو کر مشرقی ممالک و جزائر کا سامانِ تجارت یمن پہنچ جاتا تھا. اب ان کے مابین کاروبار کی جو ساری نقل و حمل (Transfer and Transport) تھی وہ صرف قریش کے ہاتھ میں تھی، جس کا قرآن مجید میں سورۂ قریش میں بڑے اہتمام سے ذکر فرمایا گیا ہے لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ﴿۱﴾اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ ۚ﴿۲﴾ ان کے قافلے سردیوں میں یمن کی طرف جاتے تھے اور گرمیوں میں شمال یعنی شام کے ساحلوں کی طرف سفر کرتے تھے.

ایک بڑا تجارتی سفر سردیوں میں اور ایک بڑا تجارتی سفر گرمیوں میں ان کے معمولات میں شامل تھا اور انہیں ان دونوں اَسفار میں مکمل امن حاصل رہتا تھا. جبکہ عرب کے دوسرے قبائل کو یہ امن میسر نہ تھا، بلکہ ان کے قافلے اکثر لوٹ لئے جاتے تھے، کیونکہ عرب کے اکثر قبائل کا پیشہ ہی لوٹ مار، رہزنی اور غارت گری تھا. تو کسی اور قبیلہ کا قافلہ شاذ ہی لوٹ مار سے بچ کر نکلتا تھا، سوائے قریش کے، کہ ان کے قافلہ کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا. وجہ یہ تھی کہ قریش کعبہ کے متولی تھے جسے تمام عرب اللہ کا گھر تسلیم کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ کعبہ میں جو تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے وہ سارے کے سارے قریش کے تو نہیں تھے. بلکہ صورت یہ تھی کہ تمام عرب قبائل کے ’’خدا‘‘ قریش کے پاس بطور ’’یرغمالی‘‘ رکھے ہوئے تھے. اگر ان کے قافلہ پر کوئی قبیلہ ہاتھ ڈالے تو قریش اس قبیلہ کے ’’خدا‘‘ کی گردن مروڑ سکتے تھے. یہ وجہ تھی کہ قریش کے قافلوں کو تحفظ حاصل تھا… سورۂ قریش میں آگے فرمایا گیا فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ ۙ﴿۳﴾الَّذِیۡۤ اَطۡعَمَہُمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ ۬ۙ وَّ اٰمَنَہُمۡ مِّنۡ خَوۡفٍ ٪﴿۴﴾ (بدبختو! تمہیں اللہ کے اس گھر کی وجہ سے رزق مل رہا ہے او رتم نے اس کی حرمت کو بٹہ لگا رکھا ہے). تم پر تو لازم ہے کہ اس گھر کے مالک اللہ واحد کی عبادت کرو، جس نے تم کو بھوک سے نجات دلا رکھی ہے اور خوف سے محفوظ کر رکھا ہے.

تو اس منظر کو سامنے رکھیے کہ مغرب و مشرق کی تجارت میں قریش کو بلاشرکت ِ غیرے اجارہ داری حاصل تھی، اس وجہ سے کہ یہ کعبہ کے متولی تھے اور کعبہ میں تمام قبیلوں کے بُت رکھے ہوئے تھے. لہذا ان کے قافلوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا. لیکن اب حضور  نے ان پر ہاتھ ڈالنا شروع فرمایا اور آپ  نے اب ایک قوت ہونے کے اعتبار سے اپنی موجودگی ثابت فرما دی. حضور کے اس اِقدام کا ایک مقصد مکہ کی معاشی ناکہ بندی تھا. حضور  نے درحقیقت قریش کی رگِ جان (Life line) پر ہاتھ ڈالا اور ان کے تجارتی قافلوں کے راستوں کو مخدوش بنا دیا. اس طرح ان کی معاش کے لیے ایک خطرہ پیدا فرما دیا. قریش کی معاشی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ حضور  کا دوسرا مقصد قریش کی سیاسی ناکہ بندی ( Isolation or Political Containment) تھا.

اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس علاقے میں جو دوسرے قبیلے آباد تھے ان کے قریش سے معاہدے تھے اور وہ ایک دوسرے کے حلیف تھے. حضور  نے اس علاقے میں متعدد سفر کیے جن میں اپنی قوت کا مظاہرہ بھی فرمایا اور دعوت و تبلیغ کا کام بھی کیا. دونوں کام ساتھ ساتھ ہو رہے تھے. بقول اقبال ؏ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد… تو تبلیغ و دعوت کے ساتھ طاقت بھی شامل ہو جائے تو اب یوں سمجھئے کہ جیسے سونے پر سہاگہ ہے. سورۂ بنی اسرائیل میں جہاں ہجرت کا ذکر آ رہا ہے وہاں حضور  کو یہ دعا تلقین کی گئی تھی وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۰﴾ ’’اے اللہ! جہاں تو مجھے داخل کرنے والا ہے وہاں میرا داخلہ سچائی اور راست بازی کے ساتھ ہو اور جہاں سے تو مجھے نکال رہا ہے وہاں سے سچائی اور راست بازی کے ساتھ نکال، اور اپنے خاص خزانۂ فضل سے قوت و طاقت کے ساتھ میری مدد فرما‘‘. یہ ہے وہ قوت اور طاقت جو حضور  کو مدینہ میں تشریف لانے کے بعد حاصل ہو گئی تھی… تو اب حضور  صحابہ کرام ؓ کے ساتھ نکلتے تھے. کسی قبیلہ میں جا کر آپ نے دس بیس دن قیام فرمایا، ان کے ساتھ معاہدے کیے، اوّل تو ان کو اپنا حلیف بنا لیا ورنہ کم ازکم انہیں غیر جانب دار ضرور بنا لیا کہ اگر تمہارا قریش کے ساتھ معاہدہ ہے تو ہمارے ساتھ بھی کرو، ہمارے خلاف ان کی مدد نہ کرو اور ان کے خلاف ہماری مدد نہ کرو، بالکل غیر جانب دار ہو جا ؤ. یہ ہیں حضور  کے وہ اقدامات جن کو جدید اصطلاحات کے حوالے سے قریش کی معاشی اور سیاسی ناکہ بندی کہا جا سکتا ہے.

ان مقاصد کے لیے چار سفر تو حضور  نے بنفس نفیس فرمائے اور چار مہمات ایسی روانہ کیں کہ جن میں آپ  شریک نہیں تھے. یہاں دو باتیں خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہیں. ایک یہ کہ ان مہموں میں آپ  نے کسی انصاری صحابی ؓ کو شامل نہیں فرمایا. یہ جملہ مہمات مہاجرینؓ پر مشتمل تھیں. اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ بیعت ِ عَقَبہ ثانیہ کے موقع پر انصارؓ نے عرض کیا تھا کہ ’’آپ مدینہ تشریف لے آیئے. اگر قریش نے آپ  کی وجہ سے مدینہ پر حملہ کیا تو ہم آپ  کی اسی طرح حفاظت کریں گے جیسے اپنے اہل و عیال کی کرتے ہیں‘‘. دوسری خاص بات یہ کہ کُل ایک سال کے اندر یہ ساری کارروائی عمل میں آ گئی. یعنی رمضان ۱ھ سے لے کر رمضان ۲ھ تک کے عرصہ میں حضور  نے آٹھ مہمات سر انجام دیں. اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس قدر کم وقت میں کس قدر شدومد اور زور شور کے ساتھ یہ عمل ہوا. ایسا نہیں تھا کہ آپ  نے بکتر بندگاڑیوں پر کوئی مہم بھیج دی ہو، بلکہ یہ تمام مہمات اونٹوں کے ذریعے یا پاپیادہ طے کی گئیں.

تعجب ہوتا ہے کہ سیرت نگاروں نے غزوۂ بدر سے قبل کی ان مہموں کا بہت ہی سرسری طور پر ذکر کیا ہے اور اس مقام سے ایسے گزر گئے ہیں کہ جیسے یہ سیرت کے غیر اہم واقعات تھے . ان کے نزدیک ہجرت کے بعد پہلا قابل ذکر واقعہ غزوۂ بدر ہے، حالانکہ غور طلب بات یہ ہے کہ غزوۂ بدر ہوا کیوں؟ غزوۂ بدر سے تواصل میں حضور  کی انقلابی جدوجہد چھٹے اور آخری مرحلے یعنی مسلح تصادم (Armed Conflict) میں داخل ہوئی ہے. لیکن Passive Resistance (یعنی صبر محض) نے ہجرت کے بعد Active Resistance (یعنی راست اقدام) کی صورت کیسے اختیار کی، جس کے نتیجہ میں مسلح تصادم کی نوبت آئی؟ یہ ہے وہ قریباً ڈیڑھ دو سال کی تاریخ جس پر غوروتدبر سے حضور  کا منہج انقلاب صحیح طور پر سمجھ آ سکے گا اوریہ بات بھی واضح ہو جائے گی کہ حضور  کو تلوار کیوں اُٹھانا پڑی.

درحقیقت پہلے چھ مہینوں میں جب کہ نبی اکرم  نے ابھی کوئی اِقدام نہیں فرمایا تھا ایک واقعہ پیش آیا جو بہت اہم ہے. رئیسِ اوس حضرت سعد بن معاذ ؓ مدینہ سے مکہ گئے. ابھی تک مسلمانوں اور مکہ کے مابین کھلا اعلان جنگ نہیں ہوا تھا. مکہ میں حضرت سعدؓ کا حلیف اُمیّہ بن خلف تھا جو کبھی حضرت بلال ؓ کا آقا ہوا کرتا تھا اور اس نے ان کو بہت ستایا تھا. حضرت سعدؓ نے اس کے یہاں قیام کیا اور پھر طواف کے لیے حرم گئے. وہاں ابوجہل سے آمنا سامنا ہو گیا. اس نے اُمیہ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ یہ اوس کے رئیس سعد بن معاذ ؓ ہیں. ابوجہل ان کے ساتھ گستاخی سے پیش آیا اور کہنے لگا ’’اگر تم اُمیہ کے حلیف نہ ہوتے تو تم بچ کر نہیں جا سکتے تھے. ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے کہ تم ہمارے دشمنوں اور بے دینوں کو پناہ دو اور خود آ کر بیت اللہ کا طواف کرو‘‘… اس کے نزدیک تو جناب محمد  اور آپ  کے ساتھی، معاذ اللہ، بے دین تھے، کیونکہ انہوں نے قریش کا بت پرستی کا آبائی دین چھوڑ دیا. حضرت سعدبن معاذؓ نے اسی وقت ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’اگر تم نے ہم پر طواف بند کیا تو جان لو کہ ہم تمہارے تجارتی راستوں کو روک دیں گے‘‘. یہ واقعہ سیرت النبی  میں موجود ہے. ان واقعات کی مدد سے حقائق کو سمجھنا ضروری ہے کہ کس طرح انقلابِ محمدی کا منہاج مختلف مراحل سے گزرا ہے… حقائق اور واقعات کو اس طرح سمجھنا چاہئے جیسے وہ پیش آئے او ران سے جو نتائج مرتب ہوتے ہیں ان پر غور کرنا چاہیے.