دوسرا اہم واقعہ یہ ہے کہ عبداللہ بن اُبی خزرج کا بہت بڑا سردار تھا اور اوس و خزرج کے دونوں قبیلے باہمی مشاورت سے اسے مدینہ کا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے. اس کے لیے تاج بھی تیار ہو گیا تھا. اوریہی بات اس شخص کی بدبختی کا اصل سبب بن گئی کہ وہ منافقین کا سرداربن گیا، کیونکہ اس کی بادشاہت کا آئینہ نبی اکرم کی مدینہ میں تشریف آوری کے باعث چکنا چور ہو گیا. اب ان بے تاج بادشاہ کے ورودِ مسعود کے بعد کسی کے باتاج بادشاہ بننے کی گنجائش کہاں رہی! وہ ایمان تو لے آیا، کیونکہ دونوں قبیلے ایمان لے آئے تھے، لیکن پہلے ہی دن سے اس کے دل میں نفاق کا بیج جو پڑا تو وہ پروان چڑھتا ہی چلا گیا. اس کے پاس قریش کے خطوط آ رہے تھے کہ تم حضور اور آپ کے ساتھ مہاجرین کو مدینہ سے باہر نکالو، تم کھڑے ہو جاؤ، تمہیں اِقدام کرنا چاہئے، ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم لشکر لے کر آنے کے لیے تیار ہیں وغیرہ وغیرہ. چنانچہ اس کی ریشہ دوانیاں ابتدا ہی سے شروع ہو گئی تھیں. یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ آپ بنفس بنفیس چل کر عبداللہ بن اُبی کے پاس تشریف لے گئے. حالانکہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ حضور اس کو طلب فرماتے اور خود انتظار فرماتے… لیکن نہیں، معاملہ دین کا ہے. اس میں کسی کی کوئی ہیٹی (۱نہیں ہو جاتی. بقولِ غالب ؏ میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا… یہاں دربدر جانا پڑتا ہے… حضور نے خالص دنیوی انداز اور دلیل سے اسے سمجھایا اور فرمایا ’’دیکھو اگر تم نے کوئی اِقدام کیا تو کیا اپنے بھائیوں کے خلاف جنگ کرو گے؟‘‘ 

حضور اسے سمجھا رہے ہیں کہ تمہارا سارا قبیلہ ایمان لا چکا ہے. اگر تم نے اس طرح کی کوئی حرکت کی جو ہمارے علم میں آئی ہے تو اچھی طرح سوچ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا! تمہیں اپنے بھائی بندوں کے خلاف جنگ (۱) ذلت کرنی پڑے گی… اسی وجہ سے اسے کوئی عملی اقدام کرنے کی جرأت نہیں ہوئی، اگرچہ وہ ساری عمر سازشیں اور ریشہ دوانیاں کرتا رہا، جیسے یہودی کرتے رہے، لیکن اسے کبھی بھی کھلم کھلا سامنے آنے کی ہمت نہیں ہوئی. 
آپ یہاں لکھنا شروع کر سکتے ہیں.