اب غزوۂ بدر سے قبل کی آٹھ مہمات کی تفصیل ملاحظہ ہو. رمضان المبارک ۱ ھ میں سب سے پہلا سریّہ نبی اکرمﷺ نے حضرت حمزہ ؓ بن عبدالمطلب کی سرکردگی میں بھیجا. یہ سریّہ تیس مہاجرین پر مشتمل تھا. یہ لشکر ساحل سمندر تک پہنچ گیا. وہاں ابوجہل تین سو کی نفری کے ساتھ کوئی تجارتی قافلہ لے کر جا رہا تھا. وہاں دونوں کی مڈ بھیڑ ہو گئی. لیکن مجدی بن عمر جہنی ایک شخص تھا جس کا حضورﷺ سے معاہدہ ہو چکا تھا، وہ بیچ میں پڑ گیا اور اس نے کوئی مسلح تصادم نہیں ہونے دیا. لہذا کوئی جنگ یا خونریزی نہیں ہوئی. ورنہ تیس صحابہ ؓ کا تین سو مشرکینِ مکہ سے مقابلہ ہوتا. گویا ایک اور دس کی نسبت تھی.یہ پہلی مہم تھی جو حضورﷺ نے رمضان ۱ ھ میں بھیجی تھی. یہ بات تاریخ کے حوالہ سے سامنے رکھیے. اس سریہ کے بارے میں تاریخ میں آیا ہے کہ پہلا جھنڈا جو محمد رسول اللہﷺ نے بلند فرمایا وہ اس سریہ کے لیے تھا جو حضورﷺ نے حضرت حمزہؓ کو عطا فرمایا تھاـ.
دوسری مہم ایک ماہ بعد ہی شوال ۱ ھ میں حضرت عبیدہ بن الحارثؓ کی سرکردگی میں مہاجرین کے ساتھ بھیجی گئی. اس کا بھی ابوسفیان کے ایک قافلہ کے ساتھ رابغ کے مقام پر آمنا سامنا ہو گیا اور ٹکراؤ کی نوبت آ گئی. رابغ بھی ساحل بحر پر ہے. (حج اور عمرہ کرنے والے حضرات اس مقام سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ یہ مدینہ کے راستہ میں آتا ہے)ـ. بہر کیف اس موقع پر بھی جنگ نہیں ہوئی. اس لیے کہ ابھی تک کسی فریق کی طرف سے بھی باقاعدہ اعلانِ جنگ نہیں ہوا تھا. رسول اللہﷺ کا مقصد اصل میں یہ تھاکہ اپنی موجودگی ثابت کر دیں کہ اب یہ تجارتی راستہ تمہارے لیے پہلے کی طرح محفوظ و مامون نہیں ہے کہ بے کھٹکے گزرتے رہو، بلکہ یہ اب ہماری زد میں ہے. اس موقع پر پہلا تیر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے چلایا، اگرچہ اس سے کوئی زخمی نہیں ہوا. یہاں بھی بیچ بچاؤ ہو گیا اور باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی.
رسول اللہﷺ نے تیسرا سریہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی زیر سرکردگی ذوالقعدہ میں بھیجا جو تیس مہاجر صحابہؓ پر مشتمل تھا. اس طرح حضورﷺ مسلسل ہر ماہ ایک ایک مہم روانہ فرما رہے تھے. اس سریہ کے لیے حضورﷺ نے ضرار کا مقام متعین فرمایا تھا. تاریخ میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرما دیا تھا کہ وہاں تک جاؤ، اس سے تجاوز نہ کرنا. ان مہموں کا مقصد دراصل قریش کے تجارتی راستوں پر اپنی موجودگی کا اعلان اور قریش کو ان راستوں کے مخدوش ہونے کی تشویش میں مبتلا کرنا تھا. حضورﷺ کے یہ اقدامات قریش مکہ کی معیشت کے اعتبار سے نہایت نازک اورپریشان کن (Critical and Crucial) تھے، کیونکہ ان کے شام کے لیے تجارتی قافلے انہی راستوں سے گزرتے تھے.
اس کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا جن میں رسول اللہﷺ بنفسِ نفیس تشریف لے گئے. اس سلسلے کا پہلا سفر ۲ھ میں ہوا. بنو زمرہ کا ایک بہت بڑا قبیلہ تھا، وہاں حضورﷺ نے قیام فرمایا. اس سفر کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اپنی موجودگی کا اظہار ہو گیا. دوسرے یہ کہ نبی اکرمﷺ کا اس قبیلہ کے ساتھ حلیف ہونے کا معاہدہ طے پا گیا. دوسرا سفر ربیع الاوّل یا ربیع الآخر میں ہوا (اس میں کچھ اختلاف ہے). اس میں غزوۂ بواط واقع ہوا، جس میں حضورﷺ خود شریک تھے. سیرت کی کتابوں میں مقام کا نام اور مہینہ تو موجود ہے لیکن اس کی تفاصیل نہیں ملتیں.
اس کے بعد حضورﷺ کے ایک نہایت اہم سفر کا ذکرکتب سیرت میں غزوۂ ذی العشیرہ کے عنوان سے ملتا ہے. حضورﷺ کا یہ سفر قریباً دو ماہ پر محیط تھا. یعنی جمادی الاولیٰ اور جمادی الاخریٰ۲ھ… اور حضورﷺ نے یہ سفر اُس قافلے کو روکنے کے لیے اختیار فرمایا تھا جو ابوسفیان کی سرکردگی میں شام کو جا رہا تھا. یہی وہ قافلہ ہے کہ جب واپس آ رہا تھا تو حضورﷺ نے اس کو روکنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے نتیجہ میں غزوۂ بدر واقع ہو گیا… اس قافلہ کا بھی ایک مخصوص تاریخی پس منظر ہے. حضورﷺ کی ہجرت سے متصلاً قبل اور بعد مکہ سے مہاجرینؓ نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی. لیکن اکثر وبیشتر مہاجرین اپنے اہل وعیال کو ساتھ نہیں لا سکے تھے اور وہ مکہ ہی میں رہ گئے تھے. اسی طرح ان کا سازو سامان اور اثاثہ و سرمایہ بھی مکہ ہی میں رہ گیا تھا. اس کے بعد مشرکین مکہ نے دارالندوہ میں یہ طے کیا تھا کہ مہاجرین کی تمام چیزیں ضبط کر لی جائیں اور ان کی فروخت سے ایک بہت بڑا فنڈ قائم کیا جائے، جس سے ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ تشکیل دیا جائے اور اس تجارت سے جو منافع ہو گا اس کو ہم مسلمانوں پر لشکر کشی کے لیے استعمال کریں گے. تو گویا یہ محض ایک تجارتی قافلہ نہیں تھا بلکہ آئندہ جو مسلح تصادم ہونے والا تھا اس کے لیے مالی ذرائع فراہم کرنا بھی اوّل روز سے اس قافلہ کی ترتیب و تشکیل میں پیش نظر تھا… یہ خبر مدینہ پہنچ چکی تھی اور بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت حمزہؓ نے حضورﷺ سے درخواست بھی کی تھی کہ اب ہمیں جنگ کرنی چاہیے. اس لیے کہ ہم جو سازو سامان اور اثاثہ مکہ میں چھوڑ کر آئے تھے وہ سارے کا سارا قریش نے ضبط کر لیا ہے اور اس کے منافع سے جنگی تیاری ان کے پیش نظر ہے.
بہرحال نبی اکرمﷺ اس قافلے کے تعاقب کے لیے نکلے. حضورﷺ کے ساتھ ڈیڑھ سو مہاجرین اور تیس اونٹ تھے. مجاہدین قافلہ کے تعاقب میں ینبوع تک پہنچ گئے. لیکن چند دنوں کا فصل پڑ گیا تھا اور قافلہ چند راتیں قبل شام کی طرف نکل چکا تھا، لہذا اس کا راستہ روکا نہیں جا سکا. البتہ نبی اکرمﷺ نے وہاں قیام فرمایا اور وہاں آباد قبیلہ بنی مصطلق کے ساتھ مصالحت کی. طے یہ ہوا کہ قبیلہ بنی مصطلق کے لوگ غیر جانبدار رہیں گے، نہ تو قریش مکہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں گے نہ مسلمانوں کے خلاف قریش مکہ کی. یہ غزوہ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس کا بالواسطہ تعلق غزوۂ بدر سے جڑ جاتا ہے.
غزوۂ بدر سے متصلاً قبل ایک غزوہ اور ہے جسے غزوۂ بدر اولیٰ سے موسوم کیا جاتا ہے. ہوا یہ کہ ایک شخص عرض بن شعری نے اپنی ذاتی حیثیت سے مسلمانوں پر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حملہ کیا اور مدینہ کے قرب و جوار میں لوٹ مار کی اور چند مویشی پکڑ کر لے گیا. اس میں قریش کا ہاتھ نہیں تھا. حضورﷺ نے تعاقب کیا اور آپﷺ بدر تک پہنچے، لیکن وہ بچ کر نکل گیا. حضورﷺ اس سے آگے تشریف نہیں لے گئے اور مراجعت فرمائی. چونکہ یہ بھی حضورﷺ کا ایک سفر ہے، طاقت اور نفری کے ساتھ، لہذا یہ بھی ان غزوات کی فہرست میں شامل ہے.