مسلح تصادم کا آغاز واقعۂ نخلہ

اس سلسلے کا اہم ترین واقعہ نخلہ کا ہے، جس نے اصل میں مکہ میں آگ لگائی. یہ واقعہ سریہ عبداللہ بن جحش ؓ کے نام سے سیرت کی کتب میں مذکور ہے. اس کا خاص معاملہ یہ ہے کہ حضور نے حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کو ایک بند خط دیا اور فرمایا کہ مکہ کی طرف جاؤ، اور جب مدینہ سے دو دن کی مسافت طے کر لو تب یہ خط کھولنا، پھر اس میں دیکھنا کہ کیا لکھا ہے، اور پھر اس کے مطابق عمل کرنا… اب آپ اندازہ کیجیے کہ رازداری (Secrecy) کس درجہ کی ہے! حضور نے اس کو اس درجہ مخفی رکھا ہے کہ خود کمانڈر کو معلوم نہیں ہے کہ وہ مہم کیا ہے جو اس کے سپرد کی گئی ہے! بعض روایات میں بارہ صحابہ اور بعض میں آٹھ کی تعداد کا ذکر آتا ہے جو حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کے ساتھ تھے. مدینہ سے دو دن کی مسافت کے بعد انہوں نے خط کھولا تو اس میں ہدایت تھی کہ وادیٔ نخلہ (۱)پہنچو. یہ وادیٔ نخلہ کہاں ہے؟ اب ذرا جغرافیہ کو ذہن میں لایئے. مکہ جنوب میں ہے، مدینہ شمال میں اور طائف مکہ سے جنوب مشرق میں ہے . مدینہ سے وہاں کا فاصلہ کم ازکم تین سو میل کا ہے. یہاں مہم بھیجنا بغیر کسی اہم منصوبہ کے اور بغیر کسی سوچے سمجھے اِقدام کے ممکن نہیں تھا، یہ تمام کارروائی بلا سبب نہیں تھی.

تو حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کو حکم ہوا کہ مکہ اور طائف کے درمیان جا کر وادیٔ نخلہ میں قیام کرو اور قریش کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھو اور ہمیں اس کے بارے میں اطلاعات دیتے رہو. یمن کی طرف جانے والے قریش کے قافلے یہاں سے ہو کر گزرتے تھے. یمن کا راستہ طائف سے ہو کر گزرتا ہے اور وادیٔ نخلہ (۱) وادیٔ نخلہ وہ وادی ہے جہاں ۱۰ نبوی میں سفر طائف سے واپس آتے ہوئے آپ نے فجر کی نماز پڑھی. اس وقت جنوں کا ایک گروہ وہاں سے گزرا اور قرآن سن کر ایمان لے آیا. طائف اور مکہ کے درمیان واقع ہے. جو قافلے شام کو جاتے تھے ان کے راستوں کے متعلق سات مہمات آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں، جو ان راستوں پر اپنی موجودگی ثابت کرنے اور ان کو مخدوش بنانے کے لیے بھیجی گئی تھیں. لیکن یہ مہم اس راستہ کے لیے تھی جو طائف سے ہو کر یمن جاتا تھا.

حضرت عبداللہ بن جحش ؓ نے جب خط پڑھا تو چونکہ مہم بڑی سخت اور کڑی آ پڑی تھی لہذا آپؓ نے اپنے ساتھیوں پر واضح کر دیا کہ میں تو جاؤں گا، اس لیے کہ حضور کا حکم ہے، لیکن تم میں سے جو میرا ساتھ دینا چاہے دے، میں کسی کو مجبور نہیں کروں گا. لیکن ان سب نے کہا جو حضور کا حکم ہے وہ ہمارے سر آنکھوں پر. ان سب نے جا کر وادیٔ نخلہ میں قیام کیا. وہاں ایک مختصر سا قافلہ آ گیا، جس میں قریش کے کل پانچ افراد شامل تھے، اگرچہ وہ سبھی بڑے اونچے گھرانوں کے لوگ تھے. متعدد اونٹوں پر لدا ہوا کافی سامانِ تجارت ان کے ساتھ تھا جو وہ طائف سے مکہ لے جا رہے تھے. یہ قافلہ جب وہاں سے گزرا تو مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہم کیا کریں. اگرچہ حضور کے خط میں صراحت نہیں تھی کہ حملہ کیا جائے، لیکن ان کی رائے یہ بنی کہ ہمیں حملہ کرنا چاہئے. چنانچہ مقابلہ ہو گیا. نتیجہ یہ نکلا کہ مکہ والوں میں سے ایک شخص جس کا نام عمرو بن عبداللہ الحضرمی بیان کیا گیا ہے، وہاں قتل ہو گیا. عمرو بن عبداللہ الحضرمی کا باپ اگرچہ حضر موت کا رہنے والا تھا لیکن مکہ میں امیّہ بن حرب (ابوسفیان کے والد) کا حلیف تھا اور وہاں حلیف کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا تھا. اس تجارتی قافلے میں مغیرہ کے دو پوتے اور ایک آزاد کردہ غلام شامل تھے. مغیرہ کے خاندان کا شمار قریش کے چوٹی کے گھرانوں میں ہوتا تھا. بہر کیف مقابلہ کے نتیجہ میں عمرو بن عبداللہ الحضرمی مارا گیا. دو افراد جان بچا کر فرار ہو گئے اور بقایا دو کو انہوں نے قیدی بنا لیا. ان دوقیدیوں اور جو بھی مالِ غنیمت ہاتھ لگا اس کو لے کر یہ حضرات مدینہ واپس آ گئے.

اس واقعہ کے متعلق ہمیں دو مختلف روایات ملتی ہیں. ایک روایت کے مطابق حضور نے حضرت عبداللہ بن جحش پر کوئی عتاب نہیں فرمایا. آپ نے مالِ غنیمت 
میں سے خُمس بھی قبول فرما لیا. جو دو قیدی تھے، ان کا فدیہ قبول کر کے انہیں آزاد فرما دیا. ان میں سے ایک قیدی حکم بن کیسان ؓ وہیں مسلمان ہو گئے. مغیرہ کے پوتوں میں سے ایک بھاگ گیا تھا. دوسرا جو قید ہوا تھا، فدیہ دے کر چلا گیا. حضور نے حضرت عبداللہ بن جحش اور ان کے ساتھیوںؓ کو نہ کوئی سرزش فرمائی اور نہ ہی کوئی وضاحت طلب فرمائی کہ تم نے میرے حکم سے تجاوز کیوں کیا؟ (یہ ایک روایت ہے جسے عبداللہ بن محمد بن عبدالوہابؒ نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے)… دوسری روایت جو بہت سی کتابوں میں بیان کی گئی ہے، یہ ہے کہ حضور نے اظہارِناراضگی فرمایا، مال غنیمت قبول نہیں فرمایا، بلکہ آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں حملہ کی اجازت نہیں دی تھی، میری ہدایت صرف یہ تھی کہ وہاں قیام کرو، قریش کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھو اور اس کی ہمیں اطلاع دیتے رہو. یہ اِقدام تم نے خود کیا ہے.

اس میں ایک مسئلہ اور پیدا ہو گیا تھا، وہ یہ کہ وہ رجب کی آخری تاریخ تھی اور رجب کا مہینہ اشہر حرم میں شامل ہے. یعنی اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے جن میں مشرک و کافر بھی جنگ نہیں کرتے تھے… عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب ؒ نے لکھا کہ مہم کے ارکان نے مشورہ کیا کہ ہمارے سامنے دو متبادل صورتیں ہیں. اگر ہم قافلہ کو چھوڑ دیتے ہیں تو رجب کی حرمت تو بچ جائے گی لیکن پھر یہ حدودِ حرم میں داخل ہو جائیں گے اور وہاں ان پر حملہ ممکن نہ ہوگا. ہم دو حرمتوں کے مابین آ گئے ہیں. رجب کی آخری تاریخ تھی. رات شروع ہوئی تو رجب بھی ختم ہوا اور اشہر حرم بھی ختم ہوئے… بہرحال مشورے سے یہ طے ہوا کہ جنگ کی جائے اور جنگ کا نتیجہ وہ نکلا جو اوپر بیان ہوا.

اس پوری صورتِ حال پر غور کرنے کے بعد امکانی نتیجہ یہ ہے کہ اگر حضور نے اظہارِ ناراضگی فرمایا تب بھی یہ بات مسلم ہے کہ انہیں کوئی سزا نہیں دی. کیونکہ صورتِ حال 
(Situation) ایسی بن گئی تھی کہ اس میں اگر صحابہ کرام ؓ اپنے ہاتھ بندھے رکھتے تو ہو سکتا تھا کہ سب شہید ہو جاتے. اس لیے کہ مڈبھیڑ ہوئی ہے، آمنا سامنا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں یہ واقعہ ظہو رپذیر ہوا ہے. واللہ اعلم.اب یہ جان لیجیے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا! مکہ میں جب یہ خبر پہنچی تو وہاں گویا آگ لگ گئی. اس لیے کہ صورتِ واقعہ یہ ہے کہ ہجرت کے بعد پہلا عَلم محمد نے بلند فرمایا… پہلا تیر محمد کے جان نثار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی طرف سے چلا اور اب پہلا قتل بھی اصحابِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ عنہم) کے ہاتھوں سے ہو گیا. حضور نے حکم دیا تھا یا نہیں، بہرحال بالفعل یہ کام حضور کے آدمیوں کے ہاتھوں ہوا تھا. ظاہر بات ہے کہ اس کی ذمہ داری تو یقینا آئے گی. جماعتی سطح پر تو یہی ہوتا ہے کہ جماعت کا کوئی فرد جب کوئی اِقدام کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت کے قائد پر آتی ہے. یا پھر یہ ہوتا ہے کہ حضور اس سے بالکلیہ بر اء ت کا اظہار فرماتے یا اِقدام کرنے والوں کو سزا دیتے اور مشرکین کے نقصان کی تلافی فرماتے. لیکن ایسی کوئی شکل حضور نے اختیار نہیں فرمائی. گویا آپ نے اپنے اصحاب ؓ کے اِس اِقدام کو قبول (Own) فرما لیا… اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مکہ میں چیخ و پکار شروع ہو گئی کہ قتل کا بدلہ قتل، خون کا بدلہ خون!… مکہ میں جو آگ لگی ہوئی تھی اُس کا اندازہ اس وقت ہو سکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ کسی قبائلی معاشرے میں یہ معاملہ کس قدر جذباتی اور اہم ہوتا ہے.

ایک طرف مکہ میں ہیجان خیز صورتحال تھی، دوسری طرف ابوسفیان کے قافلہ کی واپسی کا وقت آگیا. وہی قافلہ جسے غزوۂ ذی العشیرہ کے موقع پر حضور نے روکنے 
(intercept) کی کوشش فرمائی تھی مال واسباب سے لدا پھندا واپس آرہا تھا. تو ابوسفیان کی طرف سے مکہ میں یہ ہنگامی پیغام (S.O.S Call) پہنچ گیا کہ مجھے محمد کے ساتھیوں سے خطرہ ہے کہ وہ ہمارے قافلہ کو لوٹ لیں گے. لہذا مجھے فوراً کمک پہنچائی جائے اور قافلہ کی حفاظت کا معقول انتظام کیا جائے. یہ دونوں باتیں تھیں کہ جن کی بنا پر مکہ میں وہ لوگ جو جنگجو، جوشیلے اور مشتعل مزاج (Hawks) تھے وہ قابو سے باہر ہو گئے. ان کے ہاتھ میں ایک دلیل آگئی تھی. اس طرح کے نمایاں اشخاص ابو جہل اور ابوسفیان تھے. اس کے ساتھ ساتھ مکہ میں ٹھنڈے مزاج، بُردبار طبیعت کے حامل اور شریف النفس لوگ یعنی(Doves) بھی موجود تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ خانہ جنگی ہو. ان میں نمایاں شخصیتیں عتبہ بن ربیعہ اور حکیم بن حزام کی تھیں. آخر الذکر تو بعد میں ایمان لے آئے، جلیل القدر صحابی ہیں، رضی اللہ تعالیٰ عنہ. حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ان کی پھوپھی تھیں، اور اس رشتہ سے حضور ان کے پھوپھو ہوئے. عتبہ بن ربیعہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ اس نے ہجرت کے بعد قریش سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اب تم محمد ( ) کے خلاف کوئی اِقدام مت کرو، اب انہیں عرب کے حوالے کر دو. اب ان کا عرب سے ٹکراؤ ہوگا، ہم تو بس تماشا دیکھیں گے. اگر محمد ( ) جیت جاتے ہیں اور پورے عرب پر ان کا قبضہ وتسلط ہو جاتا ہے تو ہماری ہی جیت ہے، آخر وہ قرشی ہیں، ہمارے ہی آدمی ہیں.

وہ بڑا دور اندیش، سیاست دان اور مدبر آدمی تھا. اس نے مزید کہا کہ ’’اگر عرب محمد( ) کو ہلاک کر دیں تو جو تم چاہتے ہو وہ ہو جائے گا اور تمہیں اپنے بھائیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے نہیں پڑیں گے‘‘. اس قدر دور اندیشی کا مشورہ تھا جو عتبہ نے دیا تھا. تو عتبہ اور حکیم بن حزام آپس کی خونریزی سے بچنا چاہتے تھے. دوسری جانب ابو جہل Hawks کا سرخیل (۱تھا. وہ چاہتا تھا کہ فوری اِقدام کیا جائے. اب جب یہ صورتحال پیش آگئی تو یوں سمجھئے کہ ان کے جوشیلے اور جنگ پسند لوگوں کو تقویت حاصل ہو گئی کہ ایک تو ہمارا آدمی عمرو بن عبداللہ الحضرمی وادیٔ نخلہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا. لہذا خون کا بدلہ خون ہو گا اور دوسری طرف ہمارے تجارتی قافلہ کو شدید خطرہ درپیش ہے. لہذا ان بہانوں سے ایک ہزار جنگجوؤ ں کا کیل کانٹے سے لیش لشکر مکہ سے مدینہ روانہ ہوا، جس کے نتیجہ میں غزوۂ بدر ہوا. یہ غزوہ انقلابِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے آخری مرحلہ یعنی تصادم (Armed Conflict) کا نقطۂ آغاز ہے. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات (۱) سردار