صحیح و معتبر ترین ر وایات کے مطابق مدینہ میں حضور نے کسی جنگ کا اعلان کیا نہ تیاری فرمائی. بلکہ پیشِ نظر صرف یہ تھا کہ جو قافلہ آ رہا ہے اسے روکنا ہے. یہی وجہ ہے کہ لوگ بغیر کسی خاص اہتمام اور تیاری کے نکل کھڑے ہوئے. یاد رہے کہ غزوۂ ذوالعشیرہ میں شامل ڈیڑھ سو افراد تمام مہاجرین ہی تھے، جبکہ غزوۂ بدر میں صرف ساٹھ یا تراسی (۸۳) مہاجرین ساتھ تھے. تعداد کے متعلق دونوں روایات موجود ہیں. اگر حضور کے پیش نظر جنگ کا پروگرام ہوتا تو آپ خصوصی انتظام فرماتے اور تعداد زیادہ ہوتی. پھر یہ پہلی بار ہوا کہ انصاری صحابہؓ بھی ساتھ نکلے، بلکہ تعداد میں وہ زیادہ تھے. حضور نے مدینہ میں بھی مشورہ کیا تھا اور پھر مدینہ کے باہر بھی ایک مجلس مشاورت منعقد فرمائی، لیکن مدینہ کی مشاورت میں جنگ کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا لہذا آپ نے کسی سے تاکیداً نہیں فرمایا کہ ساتھ چلو. انصارؓ بھی خود اپنی مرضی سے ساتھ ہو گئے تھے، حضور کی طرف سے کوئی خصوصی ترغیب نہیں تھی.

آپ جب مدینہ سے کچھ دور پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ مکہ سے ایک ہزار افراد پر مشتمل کیل کانٹے سے لیس لشکر سوئے مدینہ نکل پڑا ہے اور منزل پر منزل طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے. اب یہ دو طرفہ معاملہ ہو گیا کہ شام کی طرف سے قافلہ آ رہا ہے اور جنوب 
سے لشکر چلا آ رہا ہے. چنانچہ اب یہاں مدینہ سے باہر مشاورت ہوئی جو اہم ترین مشاورت ہے. قرآن مجید ایسے معاملات کو عموماً اختصار سے بیان کرتا ہے، لہذا سورۃ الانفال کی آیات کے بین السطور یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حضور نے ازراہِ مشورہ ہی یہ بات پیش کی ہو گی کہ ’’مسلمانو! ایک قافلہ شمال سے آ رہا ہے جس کے ساتھ صرف تیس یا پچاس محافظ ہیں، مال تجارت بہت ہے، اور ایک لشکر جنوب سے آ رہا ہے جو کیل کانٹے سے لیس ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ان دو میں سے ایک پر فتح کا وعدہ کر لیا ہے، بتاؤ کدھر چلیں؟ ان حالات میں کچھ لوگوں نے اپنی مخلصانہ سوچ کے مطابق تجویز کیا کہ حضور قافلہ کی طرف چلئے. غالب گمان یہ ہے کہ یہ تجویز پیش کرنے والوں کے ذہن میں یہ بات ہو گی کہ قافلہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پچاس کی نفری ہے، وہ آسانی سے قابو آ جائیں گے، سازو سامانِ تجارت بھی بہت ہاتھ لگے اور اسلحہ بھی، جو آئندہ جنگ میں کام آئے گا. لیکن حضور جیسے کچھ منتظر سے تھے. تب لوگوں نے اندازہ کیا کہ منشائے مبارک کچھ اور ہے، حضور کا اپنا رجحان طبع کچھ اور ہے.

چنانچہ اس مرحلے پر مہاجرین نے تقریریں شروع کیں کہ حضور ! آپ ہم سے کیا پوچھتے ہیں، جو آپ کا ارادہ ہو، بسم اللہ کیجئے. حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کی، لیکن حضور نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. حضرت عمرؓ ؓ نے بھی تقریر کی، لیکن حضور نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. محسوس ہو رہا تھا جیسے حضور کسی خاص بات کے منتظر ہیں. حضرت مقداد بن اسودؓ بھی مہاجرین میں سے تھے، انہوں نے کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہے کہ ’’حضور جو آپ کا ارادہ ہو بسم اللہ کیجئے. ہمیں موسیٰ ؑ کے ساتھیوں پر قیاس نہ کیجئے جنہوں نے اپنے نبی (موسیٰ ؑ)سے یہ کہہ دیا کہ فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ (پس آپ اور آپ کا رب دونوں جائیں اور جنگ کریں، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں) آپ بسم اللہ کیجئے ہم آپ کے ساتھ لڑیں گے. کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے ذریعہ آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما دے‘‘. لیکن حضور پھر بھی کچھ انتظار کی کیفیت میں تھے.

اب حضرت سعدؓ کو خیال آیا کہ رسول اللہ  کا روئے سخن دراصل انصار کی 
جانب ہے. روایات میں اختلاف ہے کہ یہ کون سے سعدؓ ہیں. بعض کاخیال ہے کہ یہ سعد بن عبادہؓ تھے. مولانا شبلی مرحوم کا قول یہی ہے. ایک روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن معاذ ؓ تھے. میرا رجحان غالب یہی ہے کہ یہ حضرت سعد بن عبادہؓ ہی تھے. انصارؓ کے دو قبیلے تھے، خزرج اور اوس. خزرج کا قبیلہ تعداد میں ا وس سے تین گنا تھا اور اس کی طاقت بہت زیادہ تھی. خزرج ہی کی ایک شاخ کا سردار عبداللہ بن اُبی تھا، جو منافقِ اعظم تھا، اور پورے قبیلہ کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ تھے. چنانچہ سردار کی طرف سے کسی رائے کا اظہار گویا پورے قبیلہ کی طرف سے اظہارِ رائے کے مترادف تھا. اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ ؓ تھے. بہرحال ان دونوں میں سے کسی نے کھڑے ہو کر تقریر کی کہ ’’حضور معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے…‘‘ اس خیال کی وجہ کیا تھی؟

یہ کہ حضور نے بیعت ِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر مدینہ (یثرب) تشریف لانے کی جو دعوت قبول کی تھی تو اس میں یہ طے ہوا تھا کہ ’’اگر قریش مدینہ پر حملہ کریں گے تو ہم آپ کی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنے اہل وعیال کی کرتے ہیں‘‘. گویا انصار اس معاہدہ کی رُو سے اس کے پابند نہیں تھے کہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کریں. قافلہ کا راستہ روکنا اور بات ہے اور باقاعدہ ایک لشکر جرار سے جا ٹکرانا یہ بالکل دوسری بات ہے. حضرت سعدؓ کو فوراً خیال آ گیا کہ ہو نہ ہو حضور ہماری تائید کے منتظر ہیں. چنانچہ اس موقع پر حضرت سعدؓ نے اپنی تقریر میں کہا اِنَّا اٰمَنَّابِکَ وَصَدَّقْنَاکَ یعنی حضور ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے، ہم نے آپ کو اللہ کا رسول مانا ہے. (اُس وقت معاہدے میں کیا طے ہوا تھا، کیا نہیں ہوا تھا اِس وقت وہ بات غیر متعلق ہے) آپ جو بھی حکم دیں گے سر آنکھوں پر سِرْ بِنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ… ’’اے اللہ کے رسول ( ) لے چلئے ہم کو جہاں بھی لے جانا ہو. خدا کی قسم اگر آپ ہمیں اپنی سواریاں سمندر میں ڈالنے کا حکم دیں گے تو ہم اپنی سواریاں ڈال دیں گے. اگر آپ ہمیں حکم دیں گے تو ہم برک الغماد تک جا پہنچیں گے (جو یمن کے آخری کونے کا شہر ہے) اور اس کے لیے ہم اپنی سواریوں کو دبلا کر دیں گے‘‘. حضرت سعدؓ کی یہ تقریر سن کر رسول اللہ کا چہرۂ مبارک کھل اُٹھا.

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس جماعت میں حضور کی بیعت ثانوی چیز تھی. اس کی اصل بنیاد تو یہ تھی کہ جو آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کرے وہ اس جماعت میں شامل ہے. جس نے بھی آپ کو اللہ کا رسول مانا ہے اس پر آپ کی اطاعت لازم ہے. جیسے فرمایا گیا فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿۶۵﴾ (النساء:۶۵’’سو تیرے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں‘‘. ایمان کہاں رہ جائے گا اگر حضور کا حکم نہ مانیں؟ لہذا اُس وقت حضرت سعد بن عبادہ یا حضرت سعد بن معاذ (رضی اللہ عنہما) نے بڑی پیاری، بڑی بنیادی اور اصولی بات کہی تھی کہ ’’اِنَّا اٰمَنَّابِکَ وَصَدَّقْنَاکَ‘‘ اس بات سے حضور کا چہرۂ انوار کھل اُٹھا. گویا آپ انصار کی رائے معلوم کرنے کے منتظر تھے.

اِس مشاورت کے بعد نبی اکرم نے پیش قدمی فرمائی اور پھر بدر پہنچ کر جب معلوم ہو گیا کہ قریش کا لشکر وادی کے دوسرے سرے تک پہنچ چکا ہے تو وہاں آپ نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالنے کے لیے فرمایا. وہاں کا ایک واقعہ بھی بڑا اہم ہے کہ صحابہؓ میں سے بعض تجربہ کار حضرات نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر یہاں پڑاؤ ڈالنے کا فیصلہ وحی کی بنا پر ہے تو 
سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا،لیکن اگر یہ آپ کی ذاتی رائے ہے تو ہمیں یہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے کہ جنگی مہارت اور حکمت ِ عملی کا تقاضا یہ ہے کہ اِس مقام کے بجائے دوسرے مقام پر کیمپ ہونا چاہیے. 

حضور نے ان حضرات کی رائے کو قبول فرمایا. جہاں تک خالص دُنیوی امور کی تدابیر اور تجرباتی علوم کا تعلق ہے، جس طرح تابیر النخل کا معاملہ تھا، تو ان میں آپ نے ہمیشہ ہمیش کے لیے امت کے لیے یہ ہدایت و تعلیم دی ہے کہ ’’اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِدُنْیَاکُمْ‘‘ یعنی اپنے دنیوی معاملات میں تم بہتر جانتے ہو. پھر نبی اکرم کا مزاج ہی ایسا تھا کہ آپ دنیوی تدابیر کے معاملہ میں صحابہ کرام ؓ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے. چنانچہ حضور نے غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھودنے کا فیصلہ حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ پر فرمایا.