حکیم بن حزام اور عتبہ بن ربیعہ کی آخری کوشش

جنگ سے ایک رات قبل خبر پہنچ گئی کہ ابوسفیان کا قافلہ بچ کر نکل گیا ہے. اب مکہ میں چہ میگوئی (۱شروع ہوئی کہ اب جنگ کا کیا فائدہ ہے؟ ہم تو اپنے قافلہ کی حفاظت کے لیے آئے تھے. اس صورتِ حال سے مشتعل مزاج لوگوں (Hawks) کے مقابلہ میں صلح جو (Doves) کے ہاتھ میں پھر ایک دلیل آ گئی کہ ہمارا مقصد تو قافلہ کی حفاظت تھا، قافلہ بچ کر نکل گیا، پھر جنگ کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ قریش کے دو گھرانے بنو زہرہ اوربنو عدی یہ کہہ کرلشکر کو چھوڑ کر چلے گئے کہ اب ہمیں جنگ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.

اس کے علاوہ اہم ترین واقعہ یہ ہے کہ حکیم بن حزام عتبہ کے پاس گئے جو اِس لشکر کا سپہ سالار تھا اور اس سے کہا: عتبہ! تم اس وقت نیکی کا ایک ایسا کام کر سکتے ہو کہ تاریخ میں تمہارا نام لکھا جائے کہ تم نے بہت بڑا کام کیا. عتبہ کے استفسار پر انہوں نے وہی تجویز رکھی کہ ہمارا قافلہ بچ کر نکل چکا ہے، اب اس ہونے والی خونریزی کو تم روک سکتے ہو. عمرو بن عبداللہ الحضرمی کا باپ عبداللہ حرب بن اُمیّہ کا حلیف تھا. اگر تم اس کی دیت یا خون بہا ادا کر دو تو وہ مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا. قافلہ بچ کر نکل ہی چکا ہے. اس طرح جنگ کی ضرورت نہیں ہو گی. عتبہ بن ربیعہ نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بہت مناسب تجویز ہے.

وہ خود اسی مزاج کا آدمی تھا. لیکن وہ جو Hawks کا سرغنہ ابوجہل موجود تھا، فی الاصل تو اس کو سمجھانا مقصود تھا. چنانچہ دونوں اس کے پاس گئے اور اسے قائل کرنے کی کوشش کی. عتبہ نے کہا کہ دیکھو خونریزی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہمارا قافلہ بچ کر چلا گیا ہے، عمرو کا خون بہا میں ادا کر دیتا ہوں. اب ابوجہل کی چالاکی دیکھئے. اس نے ایک تو عتبہ کو بزدلی کا طعنہ دیا اور کہا کہ تم اپنے بیٹے کو سامنے دیکھ کر گھبرا گئے ہو (یاد رہے کہ عتبہ کے بڑے بیٹے حضرت ابو حذیفہؓ حضور کے ساتھ تھے، جو سابقون الاولون میں سے تھے، جبکہ عتبہ کا دوسرا بیٹا(۱) رائے زنی اس کے ساتھ تھا). ابوجہل نے مزید نمک پاشی کرتے ہوئے کہا: معلوم ہوتا ہے کہ محبتِ پدری تمہیں بزدل بنا رہی ہے کہ بیٹا مدِّ مقابل ہے، اسی لیے تم جنگ ٹالنا چاہتے ہو. اس کا عتبہ نے وہی جواب دیا جو ایسے موقع پر ایک باغیرت و باحمیت انسان کو دینا چاہیے. اس نے کہا کل کا دن بتا دے گا کہ بزدل کون ہے! وہ اس طعنہ کو برداشت نہیں کر سکا.

ابوجہل نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عمرو بن عبداللہ الحضرمی کے بھائی کو بلایا اور اس سے کہا کہ دیکھو ہم تمہارے بھائی کے خون کا بدلہ کل لے سکتے ہیں، لیکن یہ صلح پسند لوگ آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جنگ نہ ہو. اُس شخص نے عرب جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑے، بالکل عریاں ہو گیا اور شور مچا دیا 
وَاعَمرواہ، وَاعَمرواہ. (۱اسے قبائلی زندگی میں Blood Cry (خونی چیخ) کہتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ مشتعل کرنے والا نعرہ ہوتا ہے. نتیجہ یہ ہوا کہ پورے لشکر میں آگ سی لگ گئی. الغرض مشرکین کے کیمپ میں آخری رات تک یہ کشمکش جاری رہی. لیکن بالآخر فیصلہ ہو گیا کہ بہر صورت کل جنگ ہو گی. چنانچہ دوسرے دن جنگ ہو گی.