مشرکین مکہ میں سے دو اشخاص کی غزوۂ بدر شروع ہونے سے متصلاً قبل رات کی دُعائیں کتب تاریخ میں نقل ہوئی ہیں. رسول اللہ  نے بھی اسی شب کو دُعا کی. مشرکین میں سے ایک ابوجہل اور دوسرے نضر بن حارث کی دُعا تاریخ میں منقول ہوئی ہے. وہ دونوں مشرک تھے، اللہ کے منکر نہیں تھے. قران میں بار بار آتا ہے کہ جب تم پر کوئی مشکل وقت آ پڑتا ہے تو تم اپنی دیویوں اور من گھڑت معبودوں کو بھول جاتے ہو اور صرف اللہ کو پکارتے ہو. یہ دلیل آپ کو قرآن میں متعدد بار مل جائے گی. چنانچہ ابوجہل کی غزوۂ بدر کی رات کی دُعا منقول ہے ’’اَللّٰھُمَّ اَقْطَعُنَا لِلرَّحِمِ وَاَتَانَا بِمَا لَا نَعْرِفُ فَاَحِنْہُ الْغَدَاۃ‘‘ یعنی ’’اے اللہ (محمد ) ہم میں سب سے زیادہ رحمی رشتے کاٹنے والا ہے، اور ایسی چیز (۱) ہائے عَمرو، ہائے عَمرو. کسی چیز کی دہائی دینے کے لئے عربی زبان میں یہ اسلوب رائج ہے. لے آیا ہے جس سے ہم واقف ہی نہیں ہیں. پس کل تو اسے ہلاک کر دیجیو!‘‘ یہ اس شخص کی پکار ہے جس کی گھٹی میں قوم پرستی، نسل پرستی، قبائل پرستی پڑی ہوئی تھی. جناب محمدکے خلاف قریش کا سب سے بڑا الزام یہی تھا کہ انہوں نے آکر اپنی دعوت وتبلیغ کی بدولت ہمیں تقسیم کر دیا، ہماری اولاد کو ہم سے جدا کر دیا، بھائیوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا، ہماری جو قوت تھی وہ اس طور پر پراگندہ ہو گئی، ہمارے رحمی رشتے محمد نے منقطع کر دیئے.

اور نصر بن حارث کی جو دعا منقول ہوئی ہے اس کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایسے لوگ بھی تھے کہ جن کی شخصیتیں اس درجہ مسخ ہو چکی تھیں اور جن کی سوچ اس قدر غلط ہو چکی تھی کہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم محمد( ) کے ساتھیوں سے بہتر جماعت ہیں. اس کی دُعا منقول ہوئی ہے کہ 
’’اَللّٰھُمَّ انْصُرْخَیْرَ الْحِزْبَیْنِ‘‘ یعنی یہ جو دو حزب بالمقابل آ گئے ہیں، اے اللہ! ان میں سے بہتر جماعت کی مدد فرمائیو! غور کیجئے اس مشکل گھڑی میں دونوں اَللّٰھُمَّ کہہ رہے ہیں.