بہر حال اس غزوۂ بدر سے انقلاب نبوی کا چھٹا اور آخری مرحلہ یعنی مسلح تصادم (Armed Conflict) شروع ہوتا ہے. ہم دیکھ چکے ہیں کہ Active Resistance کے مرحلہ میں اِقدام حضورکی جانب سے ہوا. لیکن پہلی باقاعدہ جنگ جو ہوئی ہے وہ غزوۂ بدر ہے. اس معاملہ میں اس بحث میں پڑنے کی بجائے کہ جنگ کس نے شروع کی، کس نے نہیں کی، آیا اسلام میں صرف دفاعی جنگ کی اجازت ہے یا جارحانہ جنگ یعنی خود حملہ میں پہل کرنا بھی درست ہے، غور طلب بات یہ ہے کہ جناب محمد باطل کا قلع قمع کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے یا باطل کو acknowledge اور تسلیم کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے؟ حق کبھی باطل کو تسلیم اور برداشت کر سکتا ہے؟

اس کی ایک ہی شکل ہو سکتی ہے کہ حق کے نام لیوا بے حمیت اور بے غیرت ہو گئے ہوں، ان کو زندگی زیادہ عزیز ہو گئی ہو تو وہ حق کو مغلوب دیکھ سکتے ہیں. ورنہ غیور، باحمیت، حق کے ماننے والے اور حق کے علمبردار، باطل کا وجود کبھی گوارا نہیں کر سکتے! حق کے پاس اگر طاقت ہو تو وہ یقینا جارح ہو گا. صرف ایک فرق ذہن میں رکھیے کسی فرد (Individual) کو نہ کبھی پہلے اپنا دین بدلنے پر مجبور کیا گیا ہے، نہ آئندہ کیا جائے گا. اس کے لیے قرآن حکیم کی نص موجود ہے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ (البقرۃ:۲۵۶’’دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں ہے. بیشک ہدایت کی راہ گمراہی سے جدا ہو کر روشن اور واضح ہو چکی ہے‘‘. لیکن باطل کا غلبہ (گزشتہ صفحہ سے) آنجنابؓ اپنا نام لیں گے. لیکن حضرت علیؓ نے جواب دیا وہ شخص کہ جس کو نبی اکرم نے غزوۂ بدر سے پہلے والی شب کو اپنی جھونپڑی پر پہرے کے لیے معین فرمایا تھا، یعنی ابوبکر صدیق ؓ .(مرتب) گوارا نہیں کیا جائے گا. ملک میں تشریعی نظام (Law of the Land) بہر صورت اللہ کا قائم و نافذ ہو گا اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ (یوسف:۴۰،۶۷ الانعام:۵۷). اگر اہلِ حق میں کوئی غیرت و حمیت ہے تو وہ حق کا بول بالا کرنے، اسے غالب کرنے اور باطل کو مٹانے، اسے سرنگوں کرنے کی جدوجہد کے لیے تن، من، دھن سب کچھ لگا دیں گے. اس راہ میں جان دینے اور سرکٹانے سے زیادہ دنیا میں ان کو کوئی شے محبوب نہیں ہوگی. اقبال نے بڑا پیارا شعر کہا ہے ؎

باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول! 

یعنی باطل تو یہ چاہے گا کہ یہ صورت برقرار رہے کہ دو متضاد فکری نظام پُرامن طریق پر پہلو بہ پہلو رہیں. ا س لیے کہ اسے تو اس طرح اپنے وجود اور بقاء کی ضمانت (Lease of Existance) ملتی ہے. لیکن یاد رکھیے کہ حق و باطل کے مابین Peaceful Co-existance خود باطل ہے. حق اسے کیسے گوارا کر لے گا؟____چنانچہ پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ مکہ میں بھی تصادم کا آغاز جناب محمد رسول اللہ  نے کیا جب آپ نے یہ نعرہ لگایا لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ____ جس نے ان کے عقائد کی نفی، ان کے نظام کی نفی، ان کے رسم و رواج کی نفی، ان کے رذائل اخلاق کی نفی، ان کے معاشرتی نظام کی نفی، معاشرتی اونچ نیچ کی نفی، نسل پرستی کی نفی، آباء پرستی کی نفی، ہوائے نفس کی نفی کر دی. یوں سمجھئے کہ اس کلمۂ توحید کی زد سے باطل نظریات کا کوئی پہلو اور گوشہ نہیں بچ سکتا، اور ہر چیز کی نفی اس کلمہ میں موجود ہے.

ہجرت کے بعد کے اِقدامات بھی حضور اکرم نے کیے. وادیٔ نخلہ جیسے دُور دراز مقام پر مہم بھیجی. ابو سفیان کا قافلہ جا رہا تھا تب بھی اس میں خلل اندازی کرنے کے لیے حضور بنفسِ نفیس ڈیڑھ سو مہاجرین کے ساتھ ا س کے تعاقب میں نکلے. مولانا شبلی مرحوم نے لکھا ہے کہ ابو سفیان کا قافلہ جب واپس آ رہا تھا تو ایسے ہی خبر اُڑ گئی کہ حضور شاید اس پر حملہ کرنے والے ہیں. حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دو تین مہینے پہلے خود محمد رسول اللہ  
اس قافلے کو Intercept کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے. وہ تو ایک دن رات کا فصل پڑ گیا کہ قافلہ بچ کر نکل گیا.

حیرت ہوئی ہے کہ شبلی مرحوم نے غزوۂ ذوالعشیرہ کا ذکر تک نہیں کیا اور واقعۂ نخلہ کے بارے میں اپنا یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ہمارے سیرت نگاروں نے خواہ مخواہ ایسی باتیں لکھ دی ہیں _____میرے نزدیک شبلی مرحوم ہمدردی کے لائق ہیں. اس لیے کہ ان کا دور انگریز کا دور تھا جب مستشرقین کی طرف سے اسلام پر پے بہ پے حملے ہو رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ؏ ’’بوئے خوں آتی ہے اِس قوم کے افسانوں سے!‘‘ لہذا انہوں نے معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا. وادیٔ نخلہ کا واقعہ سیرت کی تمام کتابوں میں موجود ہے اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اِس واقعے نے مکہ میں جوشِ انتقام کی آگ بھڑکا دی تھی.