ایک اور غلط فہمی بھی دُور ہو جانی چاہیے. رسول اللہ  مکہ سے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جان بچا کر نہیں بھاگے تھے. جس کسی کا بھی یہ تصور ہو وہ اس کی اصلاح کر لے. ہمارے کچھ تجدید پسند دانشور مستشرقین کی تحریروں سے متاثر ہو کر ایسا تصور رکھتے ہیں. یہ حضرات ہجرت کے واقعہ کا ذکر Flight to Madinah یعنی ’’مدینہ کی طرف فرار‘‘ کے الفاظ سے کرتے ہیں، وہ اسے ہجرت نہیں کہتے. ہجرت اور فرار میں زمین و آسمان کا فرق ہے. حضور کے متعلق اس تصور کا ذرا سا شائبہ بھی کسی کے ذہن میں ہو تو وہ اسے کھرچ دے، ورنہ وہ اپنے ایمان کی خیر منائے. یہ بالکل ویسے ہے جیسے سورۃ الانفال میں آیا ہے کہ جنگ میں پیٹھ دکھا دینا بہت بڑا جرم اور ناقابل معافی گناہ ہے ، سوائے اس کے کہ پینترا بدلنا ہو، یا یہ کہ پیچھے جو نفری ہے اس تک پہنچ کر پھر حملہ کرنا مقصود ہو. تو ہجرت درحقیقت باطل کے خلاف پینترا بدلنا تھا. رسول اللہ نے ایک متبادل مرکز (Alternate Base) کی حیثیت سے پہلے طائف کا انتخاب کیا تھا، لیکن طائف والوں کی قسمت میں یہ سعادت نہیں تھی. اللہ تعالیٰ نے یہ خوش قسمتی اور سعادت یثرب کے لیے رکھی تھی، چنانچہ اہلِ یثرب چل کر گئے اور جناب محمد رسول اللہ  کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دے آئے، بلکہ اس کی منظوری لے آئے. اب حضور کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس گھڑی کی اجازت ملنے کا انتظار تھا جس گھڑی ہجرت کرنا تھی. جوں ہی اجازت آئی تو حضور عازم ہجرت ہوئے اور سوئے یثرب کوچ فرمایا. لیکن حضور یہاں کھجوروں کے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں آرام فرمانے نہیں آئے تھے، معاذ اللہ ثم معا ذاللہ!

تپتی راہیں مجھ کو پکاریں
دامن پکڑے چھاؤں گھنیری 

ٹھنڈی چھاؤں سب کو پسند آتی ہے، لیکن حضور تو غزوۂ بدر سے پہلے بنفسِ نفیس چار مہموں میں تشریف لے گئے. حضور نے تو ٹھنڈی چھاؤں میں آرام نہیں کیا. ابتدائی چھ مہینے ایسے ضرور ہیں جس میں حضور نہ خود کسی غزوہ کے لیے تشریف لے گئے نہ کوئی سریہ بھیجا، لیکن یہ چھ ماہ حضور نے داخلی استحکام میں صرف فرمائے. اقامتِ صلوٰۃ اور اجتماعاتِ مسلمین کے لیے مسجدی نبوی کی تعمیر، انصار و مہاجرین میں مواخات قائم فرمائی اور آس پاس کے قبائل سے معاہدے کیے. ان کاموں کو سنبھالنے کے بعد رسول اللہ  نے فوراً اِقدامات کا آغاز فرما دیا. تو یہ ہے اِقدام (Active Resistance) جس کا آغاز نبی اکرم کی طرف سے ہوا، جس کے نتیجہ میں آخری اور چھٹے مرحلے یعنی مسلح تصادم کا جو سلسلہ شروع ہوا. غزوۂ بدر اس کا آغاز ہے. یوم البدر۱۷؍رمضان المبارک ۲ھ ہے.

ابوجہل سے ایک بات اور بھی منسوب ہے کہ اس نے دعا کی تھی کہ ’’اے اللہ! اس جنگ کو یوم الفرقان بنا دے‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے اس دن کو واقعتا حق و باطل میں امتیازکرنے والا دن بنا دیا اور سورۃ الانفال میں اس کو یوم الفرقان ہی قرار دیا. واقعہ یہ ہے کہ ہجرت اور غزوۂ بدر ہی دین اللہ کے بالفعل غلبہ کی تمہید بنے.